باباجی کا کمرہ اور نئی ٹیکنالوجی 

    باباجی کا کمرہ اور نئی ٹیکنالوجی 
    باباجی کا کمرہ اور نئی ٹیکنالوجی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 صبح صبح اگر اپنے دل پسند روزنامے کی سرخی پہ نظر نہ ڈالوں تو لگتا ہے کہ ’کوئی ہینڈ‘ ہو گیا ہے۔ تو آئی فون اور ٹی وی پر چیختی چنگھاڑتی خبروں کے ہوتے ہوئے ’فرنٹ پیج‘ کی نظر نوازی کیا میری مطالعاتی ضرورت ہے یا چائے پینے اور ٹائی باندھنے کی طرح محض ایک پرانی عادت؟ ذہن میں یہ سوال دس سال سے کچھ پہلے امریکی ہفت روزہ ’نیوز ویک‘ کے روایتی پرنٹ کے خاتمے پر اٹھا تھا۔ اب روزانہ اخبارات کی اشاعت زوال پذیر ہے اور بیرونی دنیا میں کئی ماہوار جریدے محض ای ایڈیشن تک محدود ہو چکے ہیں۔ لگتا ہے کہ ابتدائی بچپن میں مقبول ماہنامے ’ریڈرز ڈائجسٹ‘ کے شماروں سے کھیلنے کی اجازت ملنے پر جو خوشی ہوئی تھی اُس سے محروم ہو رہا ہوں۔ تب ’ہیومر اِن یونیفارم‘ اور ’لائف از لائیک دیٹ‘ کا مزاح تو کبھی سمجھ میں نہ آیا مگر رنگین اور کھردرے اوراق کی خوشبو کا فرق واضح ہونے لگا تھا۔

 پھر قسمت نے پلٹا کھایا تو کسی سرکاری کھاتے میں اردو کے تین اور انگریزی کے چار روزنامے خود بخود گھر پہنچنے لگے۔ صبحدم ہاکر کی لمبی گھنٹی کے ساتھ، جو سائیکل کے اگلے پہیے میں نصب ہوتی، نوائے وقت، کوہستان اور روزنامہ تعمیر ملا کرتے۔ موخر الذکر اخبار وہی ہے جس کے نیوز ایجنٹ کی دکان پر لکھا تھا ’عبوری دارالحکومت کا سب سے قدیم اور مقبولِ عام اخبار‘۔ ساتھ ہی روزنامہ پاکستان ٹائمز آ جاتا جس کی راولپنڈی سے اشاعت جنرل ایوب کے کامیاب شبخون کا تحفہ تھی۔ ہوائی جہاز سے شام کو پہنچنے والے دو اخبار تھے مارننگ نیوز اور ڈان۔ دو پہر دو بجے ٹیبلائڈ سائز والا لاہور کا سول اینڈ ملٹری گزٹ بھی کھٹ سے ہماری دہلیز کے اِس طرف آ گرتا۔ بیچ میں یہ انگریزی اخبار پہلے چند مہینوں کے لیے معطل ہوا اور پھر مستقل بند ہو گیا۔ تب برطانوی صحافی اور شاعر ریڈیارڈ کپلنگ کا ذکر پہلی بار سُننے  کو ملا۔ 

 چھٹی کے دن ذہنی تفریح کا کوئی اور ذریعہ نہ ہوتے ہوئے ہم بچہ لوگ ریڈیو سنتے یا اخبارات ساتھ ساتھ بچھا کر اُن کا موازنہ کرتے رہتے۔ سکول میگزین کی پیلی لِیتھو والی پروف ریڈنگ سے پیشتر پر اسرار کتب بینی کا ایک مرحلہ اور بھی آیا۔ یہ تھا چوتھی پانچویں جماعت میں گرمیوں کی تعطیلات کے دوران سیالکوٹ والے گھر کے اُس کمرے میں وقت گزارنے کا چسکا جس میں خاندانی دیو مالا کے مطابق ایک ’بابا جی‘ قیام پذیر تھے۔ بابا جی کی خوشنودی کی خاطر کمرے کے ایک کونے میں ہر جمعرات کی شام ایک موم بتی بھی جلا دی جاتی۔ رات کو اپنے طور پر وہاں جانے کی جرأت تو کبھی نہ ہوئی۔ لیکن ایک دوپہر بوریت کے تسلسل سے تنگ آکر مَیں نے چھوٹے بھائی کی مدد سے چار مضبوط ٹانگوں پر کھڑی اُس کالی الماری کے پٹ کھول دیے جس کا ہمارے ذہن میں بابا جی کے ساتھ کوئی تعلق بنتا تھا۔

 اب جو الماری کے تاریک خانوں میں جھانکا ہے تو سب سے پہلے ایک بڑے سائز کا تین تین رسیوں والا ترازو برآمد ہوا۔ اس کے ساتھ سیر، دو سیر، بیس سیر اور ایک ایک من کے سرکاری مہر والے باٹ، حجم کے کچھ پیمانے اور بعض ناقابلِ فہم سے زرعی اوزار جنہیں شہر میں کبھی استعمال ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ یہ ہے نچلی دراز۔ اس کے بعد اوپر کے خانے ٹٹولے تو کچھ نہ پوچھیے کہ کیسے کیسے نوادرات نکلے ہیں۔ موٹی موٹی مجلد کتابیں۔۔۔ اول نمبر پہ قیام پاکستان کے زمانے کی نصابی کتاب ’سرمایہئ اردو۔‘ پھر ’روحِ ادب‘، ’سخندانِ فارس‘، ’دربار ِ اکبری‘، قرآن پاک کا مرماڈیوک پکتھال والا ترجمہ، انگریزی میں شارٹ سٹوری کے مجموعے، ایک کتاب ’پریس، پیپل اینڈ پارلیمنٹ‘، کئی ڈکشنریاں اور بہت سا دیگر ادبی مواد۔ 

 اِن میں سے اکثر کتابیں تو اپنے فکری ریڈار سے یکسر باہر تھیں، لیکن اس عمل میں زبان و تخیل کے کئی دریچے کھلنے لگے۔ ’سرمایہ ء اردو‘ میں فرحت اللہ بیگ کی جاڑا، گرمی اور برسات والی کہانی، خواجہ سگ پرست کا بیان اور داروغہ جی کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔ پھر ’پطرس کے مضامین‘ جن پہ مصنف کے نام کے ساتھ کنٹرولر آل انڈیا ریڈیو درج تھا۔ اپنی عمر کے لحاظ سے مجھے ’مرید پور کا پیر‘ سب سے اچھا لگا، لیکن ’انجام بخیر‘ جیسا گہرے سماجی شعور کا طنزیہ کھیل کیوں دل کو بھا یا، یہ آج تک سمجھ میں نہیں آ سکا۔ مولانا محمد حسین آزاد کی ’آبِ حیات‘ میں ’جگنو میاں کی دم‘ کا حوالہ ہمیشہ یاد رہنے والی چیز تھی۔ مگر غلام علی اینڈ سنز والی ’بانگ درا‘ کے علاوہ ایک اور پسندیدہ مجموعہ نواب کلب علی خاں فائق رامپوری کے مرتب کردہ ’مکاتیب غالب‘ تھے، جن کی اشاعت آگرہ سے ہوئی۔ 

 اب اپنا ہی ایک کالم پلیج رائیز کروں تو چھٹیوں کے دوران سیالکوٹ والے گھر میں کسی بڑے نے غور نہ کیا کہ دونوں لڑکے نیلگوں ’بانگ درا‘ اور گہری سبز جلد والے ’مکاتیب غالب‘ میں ساری ساری دوپہر کیا تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اقبال کے شعر سمجھ میں نہیں آتے تھے، نہ ابتدا میں یہ پتا چلا کہ ’ماخوذ از ایمرسن‘ یا ’ماخوذ از لانگ فیلو‘ سے کیا مراد ہے۔ پر وہ جو صوتی آہنگ کے مزے ہوا کرتے ہیں اور لفظوں سے تصویریں بنتی ہیں، یہ کھیل تو کھیلا جانے لگا۔ دیکھیئے نا ’ایک آرزو‘ میں اگر ’نغمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو‘ اور مغلیہ عہد کا واہ گارڈن اس باجے کی لہروں پر ہولے ہولے آپ کے سامنے تھرکنے لگے تو اِس ’لائیو شو‘ کے بعد انسان کو اور کیا چاہیے۔

 ہم نے ’بانگ درا‘ کے ساتھ ایک چالاکی اور بھی کی۔ کچھ کلام وہ تھا جسے گنگنا نا چنداں مشکل نہ لگا۔ ’پرندے کی فریاد‘ اور ’ماں کا خواب‘ ایسی ہی نظمیں ہیں۔ ’بچے کی دعا‘ کے لیے، جسے ہم ’لپے آتی‘ کہتے، ریڈیو پاکستان کی دھُن کافی تھی۔ ’تصویر ِ درد‘ اور ’طلوعِ اسلام‘ کا ترنم سیٹ کرنے میں حفیظ جالندھری کام آئے، یعنی ’سلام اے آمنہ کے لال‘ والی طرز۔ چند دیگر نظموں کے لیے ہم نے محمد رفیع اور لتا منگیشکر سے براہ راست رجوع کر لیا تھا۔ البتہ رمضان میں سحری کے لیے جگانے والے جس طرح فلمی دھنوں کو حلقہ بگوش اسلام کر لیتے ہیں، معمولی ترمیم و اضافہ کے ساتھ وہی کاپی پیسٹ تکنیک ہم نے بھی برتی۔ چنانچہ ’ہمالہ‘ کے لیے ’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے‘ جبکہ ’شمع اور شاعر‘ کی خاطر ’مَیں نے ’چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی۔‘ 

 حالیہ برسوں میں ’نیوز ویک‘، کئی ایک تحقیقی رسائل او ر اب ریڈرز ڈائجسٹ کا کاغذی پیرہن ادھڑ جانے پر میڈیکل سائنس کی اصطلاح میں مجھے طبع شدہ اخبارات، رسائل اور کتابوں کا ’پروگ نوزز‘ حوصلہ شکن دکھائی دیتا ہے۔ گوگل اعداد و شمار پر جاؤں تو ہائی برِڈ ایڈیشن اور مکمل خاتمے کی درمیان امکانی لکیر واضح نہیں۔ اُدھر، یک طرفہ مگر چٹ پٹی معلومات شئیر کرنے والے یو ٹیوبر اور ٹِک ٹاکر ہر قبو ل صورت آدمی کو اپنی لائن پر چلانا چاہ رہے ہیں، مگر یہ بھی سوچیں کہ نئی ٹیکنالوجی کے بلامعاوضہ سہولت کاروں نے ہم پر اپنی نامحسوس شرائط مسلط کرکے کہِیں ہمارے اسلوبِ نگارش کو محدود اور ہمارے فکری پیرایوں کو مشروط تو نہیں کر دیا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ ننھے سے ذہن نے بابا جی کے کمرے میں جو الماری کھول رکھی تھی، اُس پر میرے سیالکوٹی بزرگ کی بجائے مغرب کے کوئی بابا جی کب کے قابض ہو چکے۔ 

مزید :

رائے -کالم -