اسٹیبلشمنٹ مختارِکل نہیں رہی؟
پاکستان میں متبادل سیاسی قیادت کا فقدان اس قدر شدت اختیار کئے ہوئے ہے کہ عوام کو سمجھ آرہی ہے نہ اسٹیبلشمنٹ کو، بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے نواز شریف کا مد مقابل ڈھونڈنے کی کوشش میں عوام اور اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کی قدرو قیمت مٹی کئے ہوئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بلاول بھٹو کو متبادل قیادت کے طور پر آگے بڑھنے کا موقع دیا جاتا،لیکن ایسا ہماری اسٹیبلشمنٹ اور نہ ہی آصف زرداری نے ہونے دیا۔ ان دونوں نے بلاول بھٹو کا حصار بننے کی بجائے انہیں کچھ ایسے اپنے حصار میں لے لیا کہ وہ حصار بلاول بھٹو کے لئے پنجرہ بن چکا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ زور بلاول کا لگتا ہے اور آصف زرداری زبردستی ایوان صدر میں براجمان ہو جاتے ہیں۔
دوسری جانب جنرل پرویز مشرف اور ان کی باقیات نے پیپلز پارٹی کی بجائے پی ٹی آئی کو گود لے لیا اور عمران خان کو نواز شریف کا مد مقابل بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے لگے۔ عمران خان تو اتنے بڑے لیڈر ثابت نہ ہوئے جتنا بڑا جنرل پاشا،جنرل ظہیرالاسلام اور جنرل فیض حمید بنانا چاہتے تھے۔ اس کے برعکس وہ مرشد، ولی اور پیغمبر بننے میں زیادہ دلچسپی دکھانے لگے اور لوگوں کو دین اور رحونیت سکھانے میں جت گئے۔ سونے پر سہاگہ ان کی بشریٰ بی بی سے شادی نے کیا،جو علیحدہ سے زلفی بخاری کی مرشد بن بیٹھیں۔خیر انہوں نے تو وہی کچھ کرنا تھا جو کچھ انہیں آتا تھا، افسوس تو جنرل مشرف اور ان کی باقیات پر ہے کہ انہوں نے ایک ایسے گھوڑے پر داؤ لگادیا جو گھوڑا ثابت نہیں ہوا۔
گھوڑے سے یاد آیا جب علامہ طاہرالقادری نے اسلام آباد کا گھیراؤ کیا اور ان کے مریدین کفن پہن کر بیٹھ گئے اور اپنے تئیں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کے درپے ہو گئے تھے تب نواز شریف نے ایک نجی محفل میں علامہ طاہرالقادری کے حوالے سے ایک لطیفہ سنایا۔ انہوں نے کہا کہ گھوڑوں کی ریس ہو رہی تھی اور سامنے بالکونی میں بیٹھے لوگ اپنے اپنے گھوڑے کو آگے بڑھانے کے لئے بے تاب ہو رہے تھے۔ ان میں ایک صاحب نے دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں بے چینی سے گھوم رہے تھے اور ان کے ہاتھ میں سلگتا ہوا سگریٹ راکھ ہو رہا تھا۔ ایسے میں کسی نے ان سے پوچھا کہ چودھری صاحب، آپ اس قدر بے چین کیوں ہیں، آپ کا گھوڑا کون سا ہے؟ اس پر انہوں نے میدان کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہ جس نے سب کو آگے لگایا ہوا ہے۔ آج دیکھا جائے تو عمران خان نے سب کو آگے لگایا ہوا ہے اور کیا عوام کیا خواص، دن رات ایک ہارے ہوئے جواری کی داستان دہرارہے ہیں، مگر بات اس سے آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔
خاص طور پر بلاول بھٹو کی راہ کھوٹی ہوتی جا رہی ہے اور پریشان رہ رہ کر بالآخر وہ ذیابیطس کے مریض لگنے لگے ہیں۔ ایک وقت تھا جب نواز شریف جیسے شیر کا شکار کرنے کے لئے شیروں کے شکاری آصف زرداری نے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا تھا اور ان کا خیال تھا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی نون لیگ کا ووٹ توڑے گی اور وہ پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب سے اتنی، سنٹرل پنجاب سے اتنی اور اپر پنجاب سے اتنی سیٹی لے جائے گی کہ باقی ملک سے جیتنے والی سیٹیں ملا کر قومی اسمبلی میں ایک سو نشستیں حاصل کرلے گی اور پھر ایک اتحادی حکومت بنالے گی۔ یہ وہ فارمولہ تھا جو اس زمانے میں پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین اپنی گفتگو میں ملا کر سنایا کرتے تھے، مگر پھر چشم فلک نے دیکھا کہ پنجاب کے عوام خودبخود پیپلز پارٹی کی بجائے پی ٹی آئی کو پیاری ہو گئے اور شیروں کا شکاری اور ان کا صاحبزادہ ایک دوسرے کامنہ دیکھتے رہ گئے۔وہ دن گیا اور آج کا دن آیا عمران خان سے لے کربلاول بھٹو ہر کوئی نواز شریف کو مودی کا یار اور چور ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے۔ اگرچہ بلاول بھٹو نے اب نون لیگ کی بی ٹیم بننے کی پیشکش کو قبول کرلیا ہے، جبکہ عمران خان اور ان کی پارٹی نے نواز شریف کے خلاف چور ڈاکو کی تکرار ختم کردی ہے، مگرعوام کا کیا کریں کہ ابھی تک 2014ء کے مقام پر کھڑے ہیں اور عمران خان کو اپنی امنگوں کا ترجمان سمجھے ہوئے ہیں۔ ان کے لئے اب دوبارہ سے پیپلز پارٹی کی طرف رجوع کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی دکھائی دیتا ہے جبکہ بلاول بھٹو اس آس میں کہ لوگ عمران خان سے متنفر ہوکر دوبارہ ان کی طرف دیکھنا شروع کردیں گے، کبھی 26ویں ترمیم پاس کروانے کا کریڈٹ لیتے ہیں تو کبھی جمہوریت کا چیمپئن بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
پیپلز پارٹی سے بھی بڑھ کر اسٹیبلشمنٹ کی جان شکنجے میں آئی ہوئی ہے، اس کے آپشن روزو بروز کم ہو تے جا رہے ہیں، اسے اندازہ ہوتا جا رہا ہے کہ وہ مزید ملک کی مختار کل بن کر آگے نہیں بڑھ سکتی، کیونکہ جو لڑائی لڑتے لڑتے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو موت کو گلے لگاگئے اور جس کی زد میں آ کر نواز شریف اپنی 40سال کی سیاست کا سوا ستیاناس کر بیٹھے ہیں جبکہ عمران خان بے چین بھینسے کی طرح جیل میں پھوں پھوں کر رہے ہیں، اب اسٹیبلشمنٹ کو بھی دانتوں تلے پسینہ آنے لگا ہے اور اسے احساس ہونے لگا ہے کہ بلاول کو نظر انداز کرکے اور عمران خان کو گلے لگا کر اس نے وہ غلطی کردی ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں ہے۔ ایسے میں کچھ نئے چہرے اپنی خدمات پیش کرنے کو تیار تو ہیں، مگر اسٹیبلشمنٹ جانتی ہے کہ ان کی شخصیت کا کرشمہ وہ نہیں ہے جو سیاست کا مرکزی ستون تصور ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭