کرکٹ کے میدان میں ہاکی
”جناب آپ ایک پروفیشنل کرکٹر ہیں، پاکستان کی طرف سے کھیلتے ہوئے بھی اپنے آپ کو پروفیشنل ہی محسوس کرتے ہیں“۔پُرجوش لہجے نے فوراً جواب دیا، ہر گز نہیں،جب میں پاکستان کی طرف سے کھیلتا ہوں تو میرے جذبات بالکل مختلف ہوتے ہیں۔اُس وقت مجھے اپنا قومی وقار زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ سیٹس فیکشن (Satisfaction) مجھے اپنے وطن کے لئے کھیل کر ہی ملتی ہے۔پاکستان میرا وطن ہے، میری آرزو، میری محبت،میں اِس کے لیے کھیلتا ہوں تو پاکستانی کی حیثیت سے کھیلتا ہوں،اُس وقت میرے جذبات بھی میرے ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ آگے آگے ہوتے ہیں“۔ نوجوان کرکٹر کے اِس جواب نے دِل موہ لیا، میزبانی کے فرائض ادا کرنے والے حفیظ اللہ نیازی کا چہرہ بھی سرخ ہو گیا، اور میرے ساتھ موجود فیصل اور عمر(جن کی عمریں چار،پانچ سال ہوں گی) بھی تالیاں بجانے لگے۔ عمران خان سے ایک اخبار نویس کے طور پریہ میری پہلی ”باقاعدہ“ ملاقات تھی کہ میں اُن کا انٹرویو کرنے کے لیے حاضر ہوا تھا۔زمان پارک لاہور میں واقع اُن کے وسیع مکان کے کشادہ ڈرائنگ روم میں اُن سے گفتگو جاری تھی،عمران خان کا قد اونچا ہوتا جا رہا تھا۔ ایک اور سوال تھا: کیا آپ اِس خیال سے متفق ہیں کہ اچھا سپورٹس مین بننے کے لیے اخلاقی اقدار پر سختی سے کار بند رہنا ضروری ہے؟ ترت جواب ملا: اخلاق کے بغیر کسی شعبے میں ترقی ممکن نہیں ہونی چاہیے۔اخلاق ہماری زندگی کا بنیادی جوہر ہے۔اِسی سے انسان، انسان کہلاتا ہے۔ وہ حیوانی سطح پر جائے تو انسان کہاں رہا، جوشخص زندگی میں کسی بھی میدان میں کچھ حاصل کرنا چاہے اُسے اپنی تمام تر توجہ اِس طرف مبذول کرنا پڑتی ہے۔ اچھا سپورٹس مین بننے کے لیے تو یہ اور بھی ضروری ہے۔ایسی صورت میں ظاہر ہے (انسان) فضولیات میں اُلجھ کر اپنے آئیڈیل،اپنی منزل سے خود کو دور کر لیتا ہے“۔ یہ کہہ کر جواب دینے والے نے ہمارے دِل میں مزید جگہ گھیر لی۔
کرکٹ کے میدان میں جھنڈے گاڑنے کے بعد عمران خان نے شوکت خانم میموریل ہسپتال کی بنیاد ڈالی،اُن کی والدہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر لقمہ ئ اجل بن گئی تھیں،اُنہوں نے اِس غم کو ”غم ِ جاناں“ بنا دیا۔اُن کی یاد میں ایسا ہسپتال تعمیرکرنے کی ٹھانی کہ جہاں کینسر کے بے وسیلہ مرضوں کا مفت علاج ہو سکے۔ ایسے ہسپتال کی تعمیر اور پھر اُس کے لیے وسائل کی مسلسل فراہمی کسی طور آسان کام نہیں تھا لیکن ناقابل ِ یقین قوتِ ارادی کے مالک عمران نے اِسے کر دکھایا۔انہوں نے اِس تعمیر کو ایک تحریک کی صورت دے دی اور پوری پاکستانی قوم دیوانہ وار اُن کے ساتھ جڑتی چلی گئی۔بچوں، جوانوں، گھریلو عورتوں تک نے دِل کھول کر اُن سے تعاون کیا، ایک ہسپتال تعمیر ہوا،دوسرے کی بنیاد رکھی گئی، تیسرا تعمیر ہونا شروع ہوا، اربوں روپے پاکستانی قوم فراہم کرتی جا رہی ہے، اوورسیز پاکستانیوں نے بھی دِل کھول کر اپنے ہیرو کا ساتھ دیا اور اب لاہور، پشاور اور کراچی میں شوکت خانم ہسپتال خدمات انجام دے رہا ہے۔ہزاروں مریض اِس سے مستفیض ہوتے اور ہزاروں کیا لاکھوں ہاتھ دُعا کے لیے اُٹھے رہتے ہیں۔اس کے بانی کے لیے دُعاؤں کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آتا۔
عمران خان کرکٹر تھے تو پوری قوم کے لیے کھیلتے تھے۔ ہر پاکستانی اُن پر فدا تھا۔ سیاسی، مسلکی اور لسانی وابستگیوں سے اوپر اُٹھ کر،وہ سب کے تھے اور سب اُن کے تھے۔انہوں نے پوری قوم کو اپنے ساتھ جوڑ لیا تھا۔ شوکت خانم ہسپتال نے اِس رفاقت کو مزید گہرا کر دیا۔ ہسپتال سب کا تھا اور سب کے لیے تھا۔ یہاں آنے والے مریضوں کے پاس وسائل ہوں یا نہ ہوں، سب کا ایک جیسا علاج ہوتا تھا، سب پر یکساں توجہ کی جاتی تھی،اِس ہسپتال نے عمران خان اور اہل ِ پاکستان کے رشتے کو مضبوط ترکر دیا۔
عمران خان نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا تواُن سے توقع تھی کہ وہ پاکستانی قوم کو جوڑیں گے،نئی سیاست کی بنیاد رکھیں گے،اُن کے مداح اُن میں قائداعظمؒ کی جھلک دیکھ اور دِکھا رہے تھے۔ اوّل اوّل انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، تحریک انصاف کو ایک بڑی جماعت کے طور پر اپنا آپ منوانے میں کئی برس لگ گئے۔ عمران خان نے ہمت نہ ہاری اور بالآخر وہ ایک بڑے اور مقبول سیاسی رہنما کے طور پر اُبھر آئے، اُن کی سیاست جن ادوار سے گذری اُن کی تفصیل کا یہ محل نہیں،اپوزیشن لیڈرکے طور پر انہوں نے اپنے آپ کو منوایا اور وزارتِ عظمیٰ کا منصب بھی اُن کی جھولی میں آن گرا۔ اقتدار اُن کے گھر سے رخصت ہوا تو اُن کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا لیکن اب وہ سب کے نہیں تھے،پاکستانی قوم کو اُن کی سیاست تقسیم کر رہی تھی اور ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر رہی تھی، پولرائزیشن میں اضافہ ہو رہا تھا، پاکستانی پاکستانیوں کے جانی دشمن بن گئے تھے۔اب عمران خان جیل میں ہیں لیکن اُن کی سیاست ہنگامے اُٹھا رہی ہے، مارو یا مر جاؤ کے نعرے لگا رہی ہے۔ گذشتہ سال 9مئی کو جو کچھ ہوا اور چند روز پہلے اسلام آباد میں جو واقعات پیش آئے،انہوں نے قوم کو اُلجھا دیا ہے۔ خانہ جنگی کا سماں ہے۔ تقسیم اور تفریق کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ عمران خان نے اپنی رہائی کے لیے اپنے کارکنوں کو اسلام آباد پہنچنے اور وہاں دھرنا دینے کا جو حکم دیا تھا اُس کے نتیجے میں جو کچھ ہوا، اُس نے تلخیاں اور دوریاں بڑھا دی ہیں۔ سیاست کے خون آلود چہرے نے ہمارے مستقبل کو گہنا دیا ہے۔اِس سے قطع نظر کہ کس نے کس کو نشانہ بنایا، کس نے کس کی جان لی،اور کس نے کس پر سیدھی یا ترچھی گولیاں چلائیں،تقسیم کی لہر سیاست کو شدید متاثر کر چکی ہے۔ خان کی زوجہ نمبر3 بشریٰ بی بی کی دخل اندازی نے معاملات کو سنبھالا نہیں، انہیں اُلجھایا بلکہ بگاڑا ہے۔ خان کے مخالف کیا سوچتے، کیا کرتے اور کیا فائدہ یا نقصان اُٹھاتے ہیں،خان کی توجہ اُن الفاظ کی طرف دلانے کی جسارت کر رہا ہوں جو انہوں نے 44برس پہلے ادا کیے تھے۔ ہماری اجتماعی زندگی کو آج شدت سے اخلاقی اقدار کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ ہر سیاستدان دوسرے کو اُن کا سبق دے رہا ہے لیکن خود عمل پیرا ہونے کو تیار نہیں ہے۔جھوٹ کا مقابلہ جھوٹ سے، مبالغے کا مبالغے سے، فیک نیوز کا مقابلہ کرنا فیک نیوز سکہ رائج الوقت بن رہا ہے۔ تحریک انصاف کے پروپیگنڈا سیل تو دنیا بھر میں سرگرم ہیں اور اپنے بیانیے کو بڑھاوا دینے میں ہر حد سے گذررہے ہیں۔اُن کے مخالف بھی لنگر لنگوٹ کس کراِسی اکھاڑے میں ہیں۔مزید یہ کہ کرکٹ اگر پاکستان کے لیے کھیلی جا رہی تھی تو سیاست پاکستان کے لیے کیوں نہیں کی جا سکتی؟ یکطرفہ طور پر ہی فیصلہ کر لیا جائے،قوم کو آپس میں اور ایسے اداروں سے ٹکرا کر سب کے ہاتھ خالی ہو جائیں گے۔خان صاحب، محاذ آرائی اور تقسیم در تقسیم کی سیاست پر نظرثانی کر لیجیے۔ اپنے مخالفوں کی طرف نہ دیکھیئے،اُن سے رہنمائی حاصل نہ کیجیئے، اُن کی پیروی نہ کیجیئے، اپنے طور پر پیش قدمی کر گذریئے۔الزامی،اجتماعی اور جذباتی سیاست کو ترک کر ڈالیے۔قوم کو جوڑیے، پارلیمانی سیاست کے اندر سے اپناراستہ نکالیے۔ اپنے کارکنوں کے حال پر رحم کھایئے، اُن کے ووٹ کو طاقت بنایئے، کرکٹ کے میدان میں ہاکی نہ کھیلیئے، کرکٹ کے قواعد اور ضوابط کے مطابق کرکٹ کھیلیئے اور چھکے چھُڑا دیجیئے۔
(یہ کالم روزنامہ ”پاکستان“ اور روزنامہ ”دُنیا“ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)