قلوپطرہ کے علاوہ مصر کی ایک اور حسین ملکہ ہوا کرتی تھی، مصر میں جتنے اسکے مجسمے بنائے اور خریدے جاتے ہیں شاید ہی کسی اور کے ہوں 

 قلوپطرہ کے علاوہ مصر کی ایک اور حسین ملکہ ہوا کرتی تھی، مصر میں جتنے اسکے ...
 قلوپطرہ کے علاوہ مصر کی ایک اور حسین ملکہ ہوا کرتی تھی، مصر میں جتنے اسکے مجسمے بنائے اور خریدے جاتے ہیں شاید ہی کسی اور کے ہوں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:78
  ملکہ نیل،   نفرتیتی
 میں نے اسے کہا کہ وہ مجھے مصر کی ایک اور مشہور اور خوبصورت ملکہ نفرتیتی کا مقبرہ دکھا لائے۔ خوبصورت نقش و نگار اور اپنی لمبی صراحی دار گردن کی بدولت یہ ملکہ اپنے حسن کا ثانی نہیں رکھتی تھی اور مصر کے بازاروں میں سب جگہ اسی کے مجسمے پائے جاتے تھے۔ احمد ذرا سا مسکرایا اور بولا کہ”وہ تو یہاں نہیں ہوتی“۔ پھر اس نے مختصراً اس کی کہانی سنائی کہ قلوپطرہ کے علاوہ بھی مصر کی ایک اور حسین ملکہ ہوا کرتی تھی۔ نام تو اس کا نفرتیتی تھا لیکن پیار سے اسے لوگ نیل کی ملکہ کہا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اس کو سرکاری طور پر اس کے شوہر اور بادشاہ وقت فرعون آخینا تن نے کوئی درجن بھر القابات سے نوازا ہوا تھا۔ وہ قدیم مصری حسن کا ایک شاہکار تھی۔ آج تک مصر میں جتنے بھی اس ملکہ کے مجسمے بنائے اور خریدے جاتے ہیں وہ شائید ہی کسی اور کے ہوں۔ میں نے بھی قاہرہ میں اس کے چند مجسمے خریدے تھے جو ابھی بھی میرے ڈرائنگ روم کی زینت ہیں۔ تقریباً ہر مجسمے میں وہ اپنی بڑی بڑی آنکھوں، صراحی دار گردن اور لمبے سے تاج کے ساتھ بہت ہی منفرد نظر آتی ہے۔ اس نے اپنے شوہر کے پہلو میں کھڑے ہو کر دو دہائیوں تک مصر پر حکومت کی۔ اس دوران اس کے خاوند نے فرعونوں کے تاریخی دارالخلافہ تھبیس سے کوئی سو کلومیٹر آگے امرنا کے مقام پر اپنا نیا دارالخلافہ بنا لیااور خود بھی وہاں منتقل ہوگیا۔وہاں جا کر اس نے نئے سرے سے اپنے محلات، معبدوں اور مندروں وغیرہ کی تعمیر شروع کروائی۔ نفرتیتی بھی اسی کے ساتھ ہی وہاں منتقل ہوئی اور کاروبار سلطنت چلانے میں اپنے اس شوہر کا خوب ساتھ نبھایا جودو سرے فرعونوں کے بر عکس حیرت انگیز طور پر صرف ایک خدا کو مانتا تھا۔ ایک طبی تحقیق کے مطابق وہ ایک وبائی مرض کا شکار ہو کر محض چالیس سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئی اور اپنی خوبصورتی کے علاوہ ذہانت اور عظمت کی بے شمار داستانیں مصریوں اور دنیا والوں کے لئے چھوڑ گئی۔
حیرت انگیز طور پر اس کی موت کے بعد اس کا کوئی مقبرہ یا مدفن تاریخ دانوں کو نہ ملا۔ تاہم 1880ء میں امرنا کے رہائشیوں نے ایک بری طرح تباہ شدہ مقبرہ دریافت کیا جس پر تفصیلاً تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ یہ مقبرہ اس کے شوہربادشاہ آخیناتن اور اس کی بیٹی کا تھا۔ ملکہ نفرتیتی کے مدفن کا اب بھی علم نہ ہوسکا تھا۔ پھر اسی تحقیق کے دوران ڈرامائی طور پر بادشاہ کے اس مقبرے کے ساتھ بری طرح تباہ شدہ حالت میں ایک اورکمرہ دریافت ہوا اس کو جب کھولا گیا تو اس میں سے تین خواتین کی ممیاں برآمد ہوئیں جس میں سے ایک بڑی عمر کی عورت اور دو نسبتاً جوان لڑکیوں کی تھیں۔ کافی بحث و مباحثے کے بعد ماہرین آثار قدیمہ نے یہ تسلیم کر لیا کہ بڑی عمر کی یہ خاتون ہی دراصل عظیم ملکہ نفرتیتی ہے۔ بہرحال یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی ہے۔ میں اس کہانی میں ایسا گم ہوا کہ وقت کا اندازہ ہی نہ ہوا۔
ملکہ مصر، قلوپطرہ
 میں نے لگے ہاتھوں احمد سے مصر کی ایک اور حسین و جمیل خاتون او ر فرعون ملکہ قلوپطرہ کے بارے میں جاننا چاہا۔ مجھے اس بات کا علم تھا کہ اس کا مدفن یہاں تھبیس یا قاہر ہ میں نہیں ہے بلکہ وہ مصر کے ایک اور بڑے شہر اسکندریہ میں ہے، کیونکہ اس کی موت وہیں پر ہوئی تھی اور وہ اپنے محبوب انتھونی کی بانہوں میں اس کے ساتھ ہی وہاں دفن ہوئی تھی۔) جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

ادب وثقافت -