روکی انکل،مسور کی دال اور اماں بھٹارن،اُس بے لوث زمانے کے بزرگ بڑے مخلص تھے،اب نہ لوگوں میں برداشت رہی اور نہ ہی بڑے چھوٹے کا لحاظ
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط36:
رانی، کیجو، اماں بکھاں اور ارشد؛
اس گھر میں 2گھریلو ملازمہ بھی تھیں۔ نام کی رانی اور شکل کی کالی۔ یہ صفائی کا کام کرتی تھی۔دوسری امی جی کا کچن میں ہاتھ بٹاتی اور ہم بہن بھائیوں کا خیال کرتی تھی۔ نام کنیز تھا جسے سب ”کیجو“ بلاتے تھے۔ کیجو شکل و صورت کی رانی تھی۔ گورا رنگ، لمبا اونچا قد، پر کشش جسم۔ اس کا گھر میرے گھر کے قریب ہی تھا۔ ایک اور خاتون جسے سب ”اماں بکھاں“ بلاتے تھے۔ تیس پنتیس برس کی کھلتے سانولے رنگ کی پر کشش عورت تھی۔ خالصتاً دیہاتی عورت۔ کرتا اور لاچہ پہنتی تھی۔ یہ بھی اکثر میری والدہ کے پاس آتی، چاول صاف کر دیتی، آٹا، سرخ مرچ وغیرہ پسوا دیتی، سردیوں کے موسم کے بعد رضائیوں کی دوبارہ سے دھلائی، سلائی کرتی تھی۔ یہ چھوٹی عمر میں بیوہ ہو گئی تھی۔ نہ ہی اس کی کوئی اولاد تھی اور نہ ہی اس نے دوبارہ شادی کی۔ میں اب6 برس کا تھا۔اماں بکھاں مجھ سے بہت پیار کرتی تھی۔ اکثر مجھے گودی میں بٹھا لیتی، خوب چومتی اور میرے ہو نٹ کا ٹ لیتی تھی۔ میں رو کر اس کی گودی سے اترکر دوڑ جاتا۔
یہیں ارشد میرا پہلادوست بنا۔ وہ میرے گھر سے ایک آدھ فرلانگ دور ہی رہتا تھا۔ اس کا گھر بھی بڑا تھا۔ اس کے بڑے بھائی ریلوے میں گارڈ تھے جبکہ اس کی بہن روبینہ ہم سے عمر میں بڑی اور بھر پور جوان تھی۔ اُس خالص دور میں خالص خوراک بچوں کو جلد جوان اور توانا بنا دیتی تھی۔ روزانہ ان کے گھر آنکھ مچولی کھیلتے۔ وہ ہر بار مجھے اپنے ساتھ رضائی والی پیٹی یا ایک اندھیرے کونے میں لے کر چھپ جاتی تھی۔ کوئی بھی ہمیں تلاش کرنے میں ناکام ہی رہتا۔ اس چھپن چھپائی کے دوران وہ مجھے بہت پیار کرتی۔۔مجھے افسوس کہ ارشد اور اس بڑے بھائی جوانی کی عمر میں ہی انتقال کر گئے تھے۔
روکی انکل،مسور کی دال اور اماں بھٹارن؛
میری یادداشت مجھے یہ بھی یاد دلا رہی ہے کہ میرے گھر کے سامنے ابا جی کے ایک کولیگ ”روکی انکل“رہا کرتے تھے۔یہ عیسائی مذھب سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا بدن کسرتی تھا اور ایک بازو پر ٹیٹو بنا تھا۔ یہ غالباً پہلا ٹیٹو تھا جو زندگی میں نے دیکھا تھا۔(گہرے سبز رنگ کا ٹیٹو ان کے دونوں بازوؤں کے اوپری حصہ پر بنا تھا۔) وہ دال مسور کے بہت شوقین تھے اور مجھے بھی انہوں نے دال کا ایسا چسکا ڈالا کہ یہ میری مرغوب خوراک بن گئی اور میرے گھر والے مجھے دال خور کہنے لگے۔ آج بھی دال مسور، دال ماش اور دال چنا میری پسندیدہ دالیں ہیں۔مجھے یہ بھی کل ہی بات لگتی ہے کہ شام کو امی جی مجھے نہلا دہلا کر نیکر اوربشرٹ پہناتیں اور دو پیسے دیتی تھیں۔ میں اماں بھٹارن کی بھٹی پر جاتا 2 پیسے کے چنے بھنواتا اور ارشد کے گھر چلا جاتا تھا۔ سفید بالوں والی بھٹارن”اماں حاجراں“ بڑی رحم دل اور شفیق عورت تھی۔ شام کے وقت محلے کے بہت سے بچے اور بڑے اس کی بھٹی کا رخ کرتے، مکئی یا چنے بھنواتے۔ وہ سب کو نیک بختی اور لمبی عمر کی دعائیں دیتی تھی۔ اُس بے لوث زمانے کے بزرگ بڑے مخلص تھے۔ اماں بھی ایسی ہی تھی۔ امی جی سے اسے خاص عقیدت تھی۔ اکثر دن کو امی جی کے پاس چلی آتی اور اپنے بچوں کی بے رخی کی باتیں کرتی اپنی آنکھیں پرنم کر لیا کرتی تھی۔ماں باپ سے بے رخی اس دور میں بھی تھی لیکن شازو نادر۔ معاشرہ ایسے لوگوں کو بری نظر سے دیکھتا اور کوئی بھی اس قماش کے افراد سے بات کرنا بھی پسند نہ کرتا تھا۔ محلے کے بزرگ یا بااثر لوگ ایسے بد قماشوں کو اپنے گھر بلا کر سخت ڈانٹ ڈپٹ بھی کر دیا کرتے تھے۔ایسے بزرگوں کا اپنا خوف اور ڈر بھی ہوتا تھا۔لہٰذا بزرگوں کے ساتھ بد تہذیبی کے واقعات اکا دوکا اور کبھی کبھار ہی ہوتے تھے۔ آج تو ایسے واقعات گھر گھر کی کہانی بنتے جا رہے ہیں۔اب نہ تو لوگوں میں برداشت رہی ہے، نہ ہی دید مرید اور نہ ہی بڑے چھوٹے کا لحاظ۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔