یوکرین جنگ ایٹمی تصادم میں بدل سکتی ہے؟ سکیورٹی مبصرین کی تشویش

 یوکرین جنگ ایٹمی تصادم میں بدل سکتی ہے؟ سکیورٹی مبصرین کی تشویش

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


واشنگٹن (اظہر زمان، خصوصی تجزیاتی رپورٹ) روس کی یوکرین پر جارحیت کے نتیجے میں وہاں جو جنگ جاری ہے اس پر عالمی سکیورٹی مبصرین کو شدید تشویش ہے کہ معمولی سی غلطی ہونے کے سبب یہ ایٹمی تصادم میں بدل سکتی ہے۔ چرنوبل کے ایٹمی پلانٹ پر روسی فوج کے متنازعہ دعوے کے بعد یہ سوال پیدا ہوا اور اسے تقویت ملی، جب روسی صدر پیوٹن نے ایٹمی سامان کو استعمال کرنیوالے فوجی کمانڈروں کو ”ہائی الرٹ“ پر رہنے کی ہدایت دی۔ پینٹاگون کے ایک اعلیٰ افسر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ صدر پیوٹن کی یہ ہدایت بہت زیادہ خطرناک ہوسکتی ہے جو اس جنگ کو ایٹمی تصادم کی طرف لے جاسکتی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ روس عالمی سطح پر یوکرین پر کھلی جارحیت اور چڑھائی کے سبب ”ڈپلومیٹک تنہائی“ کا شکار ہے۔ پیوٹن نے نام ہاد آزاد ریاستوں کا خود ہی قیام کروایا، انہیں تسلیم کیا اور ان کو تحفظ فراہم کرنے اور قیام امن کے بہانے مشرقی سرحد پر موجود دو لاکھ کے قریب اپنی فوج کو یوکرین میں داخل کرنے کا جو جواز دنیا کے سامنے پیش کیا، اسے کسی ملک نے نہیں ”خریدا“ حتیٰ کہ چین نے بھی جس سے اس نے حال میں سٹرٹیجک معاہدہ کیا ہے۔ اس کا مناسب ساتھ نہیں دیا۔ سلامتی کونسل میں اس مسئلے پر ویٹو استعمال کرنے کی بجائے چین نے غیرحاضر رہنے کو ترجیح دی۔ چین نے اس جارجیت کی حمایت سے صاف گریز کرتے ہوئے روس کو جنگ کی بجائے امن مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کا مشورہ دیا جو روس کو بالکل پسند نہیں آیا۔ عالمی رائے عامہ نے واضح طور پر ایک جارح اور جابر ملک قراردیا۔ جس وقت صدر پیوٹن یوکرین میں فوجی مداخلت کا اعلان کرنے کا جارہا تھا اس نازک مرحلے پر پاکستانی وزیراعظم عمران خان ماسکو میں پہنچ کر صدر پیوٹن کیساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوکر بلاسبب اپنا ریکارڈ خراب کرلیا۔ دنیا بھر میں اسے ناپسندیدگی کیساتھ دیکھا گیا۔ حتیٰ کہ پاکستان میں بھی اس اقدام نے ان کے حامیوں اور مخالفوں دونوں کو حیران اور پریشان کردیا۔ امریکہ اور نیٹو نے یہ الزام اپنے سر لیا کہ انہوں نے روس کی طرح یوکرین میں داخل ہوکر اس کی فوجوں کا مقابلہ کیوں نہیں کیا۔ لیکن مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے جو آپشن استعمال کی اس سے عالمی جنگ کا خطرہ ٹل گیا اور اس کیساتھ ساتھ روس کیخلاف اپنے اہداف کو زیادہ بہتر اور ڈپلومیٹک طریقے سے پورا کرلیا۔ پینٹاگون سے ملنے والی اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ اور نیٹو اتحادیوں نے یوکرین کو بھاری اسلحہ سپلائی کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ روسی فوج کو وہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی جس کی وہ توقع کر رہا تھا۔ عالمی رائے عامہ نے نیٹو کے جنگ میں براہ راست شامل ہونے سے احتراز اور اس کی بجائے ڈپلومیٹک اور مالیاتی اعتبار سے روس کو کمزور کرنے کے فیصلے کو سراہا۔ ایک طرف روس اپنی جارحیت کا جوا نہ ہونے کے سبب کمزور وکٹ پر کھیل رہا تھا۔ دوسری طرف یوکرین بھاری اسلحے کیساتھ اس کا سامنا کر رہا تھا اور تیسری طرف اس کا حوصلہ اس لئے بھی ٹوٹ رہا ہے کہ وہ امریکہ اور نیٹو کی مالیاتی پابندیوں کے باعث مالیاتی کا شکار ہو رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق نیٹو کی مالیاتی پابندیاں اتنی شدید ہیں کہ روس کی چیخیں نکل گئی ہیں، جنگ بندی مذاکرات کرنے میں آمادگی کا سبب یہی امریکہ اور نیٹو کا ناقابل برداشت ”مالیاتی حملہ“ ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ نے سوموار کے دن ان پابندیوں کی تفصیل جاری کی ہے۔ اس کے مطابق تمام امر یکیوں کوہدایت کی گئی ہے کہ وہ روس کے مرکزی بینک، نیشنل ویلتھ فنڈ اور وزارت خزانہ سے ساتھ تمام لین دین فوراً بند کردیں۔ معاشی ماہرین کے مطابق اس سے روس میں افراط زر کی شرح پہلے ہی بڑھنا شروع ہوگئی ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق روسی کرنسی کی تبادلے کی شرح ڈالر کے مقابلے پر مزید 30%  کم ہو چکی ہے۔ اس کی قوت خرید کم ہو رہی ہے اوراس کی سرمایہ کاری کی سطح نیچے جارہی ہے۔ روس کیساتھ براہ راست جنگ میں الجھنے کی بجائے روس کو یوکرین پر جارحیت کی اس سے بہتر سزا نہیں دی جاسکتی تھی۔
ماہرین تشویش

مزید :

صفحہ اول -