ایسا ہوتا ہے جج

   ایسا ہوتا ہے جج
   ایسا ہوتا ہے جج

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 گزشتہ روز ایک رکشے کے پیچھے پاکستان برابری پارٹی کے سربراہ جواد احمد، جو مشہور گلوکار بھی ہیں، کا ایک اشتہار لگا ہوا تھا جس میں ان کی اپنی تصویر کے علاوہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تصویر بھی چسپاں تھی اورساتھ میں جلی حروف میں لکھا ہواتھا کہ ایسا ہوتا ہے جج!دوسری جانب ایک موقر روزنامہ میں جسٹس منصور علی شاہ کے قریبی ذرائع سے خبر موجود ہے کہ وہ ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں کہ چیف جسٹس بن جانے کے بعد ان کے کچھ کوئی خفیہ عزائم تھے جن کا مقصد حکومت وقت کو ناکوں چنے چبوانا تھا۔ 

ایک طرف قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں یہ اشتہار کہ ایسا ہوتا ہے جج اور دوسری جانب جسٹس منصور علی شاہ کی وضاحتی تردید سے ہمیں یاد آگیا کہ جب جسٹس منصور علی شاہ لاہور ہائیکورٹ میں فرائض سرانجام دے رہے تھے تو ایک مرتبہ اپنے مرحوم استاد ڈاکٹر اے باسط کے چیمبر کی جانب سے ایک مقدمے میں ان کے سامنے پیش ہونے کا موقع ملا۔ کمرہ عدالت وکیلوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میرے ہاتھوں میں مقدمے کی فائل کا پلندہ تھا جس پر نظر ثانی بھی ضروری تھی تاکہ معزز جج صاحب کے روبرو تفصیل بیان کرکے مطلوبہ ریلیف حاصل کی جا سکے۔ چونکہ پورا کمرہ عدالت وکیلوں سے بھرا ہوا تھا اور کہیں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی،اتنے میں میری نظر فرنٹ سیٹوں کے آخر میں بیٹھے ایک لڑکے اور لڑکی پر پڑی، میں جھٹ ان کی طرف گیا اور نوعمر لڑکے سے کہا کہ ایک تو عمر میں آپ سے سنیئر ہوں اور دوسرا مجھے مقدمے کی تیاری بھی کرنی ہے، اس لئے آپ مہربانی کریں اور میرے لئے سیٹ چھوڑ دیں،ان دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اورپھر دونوں ہی اٹھ گئے،میں بغیر تاخیر سے نشست پر بیٹھا اور مقدمے کی فائل کھول کر ورق گردانی شروع کردی تاکہ جج صاحب کے سامنے پیش ہوں تو کوئی نقطہ ایسا نہ ہو جو میرے علم میں نہ ہو۔ 

کچھ دیر بعد مقدمے کی آواز پڑی تو میں ڈائس پر چلا گیا۔ جناب جسٹس منصور علی شاہ نے دریافت کیا کہ مقدمہ کیا ہے؟ میں نے فوراً تفصیل بتائی۔ اس پر کہنے لگے کہ آپ براہ راست ہائیکورٹ سے کیسے رجوع کر سکتے ہیں جب کہ آپ کے پاس متعلقہ ادارے میں درخواست دینے کا آپشن موجود ہے، جب تک اس آپشن کو استعمال نہیں کرلیا جاتا تب تک آپ آگے نہیں بڑھ سکتے،میں نے عرض کی کہ متعلقہ ادارے میں متعلقہ افسر کو درخواست دی تھی مگر ان کے سٹاف نے درخواست وصول ہی نہیں کی اور وہ مجھے سننے سے انکاری ہیں، پھر میں نے معزز جج صاحب کی توجہ مسل کے صفحہ نمبر 17کی جانب دلوائی اور بتایا کہ میں نے اس میں درج کیا ہے کہ میں نے ان کے دفتر میں درخواست دینے کے باوجود کوئی عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ تاہم جج صاحب نے کہا کہ جب تک آپ پہلا فورم استعمال نہیں کر لیتے تب تک ہائیکورٹ میں نہیں آ سکتے، ہمارے درمیان کچھ دیر تک بحث جاری رہی۔ میں ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ پہلا دستیاب فورم مجھے سننے سے انکار ی ہے اور جج صاحب پوچھتے رہے کہ وہ کیسے انکار کر سکتے ہیں، میں نے گزارش کی کہ اگر معزز عدالت میری پٹیشن کو درخواست میں تبدیل کرکے متعلقہ ادارے کو بھیج دے تو بھی مجھے اعتراض نہ ہوگا لیکن جج صاحب اس پر بھی راضی نہ ہوئے۔ آخری ہتھیار کے طور پر میں نے کہا کہ چونکہ اس مقدمے میں وکیل ڈاکٹر باسط ہیں اور میں ان کا اسسٹنٹ ہوں،اس لئے آپ مقدمے کو انتظار میں رکھ لیں اور ڈاکٹر صاحب کو دلائل دینے کا موقع دیں،یہ وہ لمحہ تھا جب معزز جج صاحب نے مجھ پر چڑھائی کردی کہ اگرآپ نے یہی استدعا کرنی تھی تو اتنی دیر تک عدالت کا وقت کیوں ضائع کیا؟ میں بغلیں جھانکنے لگا اور جج صاحب بھری عدالت میں میری جھاڑ جھپٹ کرتے رہے۔ بالآخر انہوں نے اپنی پوری تسلی کرکے کہا کہ ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب کو بُلا لیجئے۔ میں نچوڑے لیموں کی طرح جا کر ایک طرف کھڑا ہو گیا، کچھ دیر میں ڈاکٹر صاحب آئے اور جونہی روبرو عدالت پیش ہوئے، معزز جج صاحب نے ان کے کچھ کہنے سے پہلے کہا کہ ڈاکٹر صاحب میں اس پٹیشن کو درخواست میں بدل کر متعلقہ ادارے کو بھیج رہا ہوں،ان کا جواب آنے کے بعد انہیں نوٹس کردیں گے۔ ڈاکٹر صاحب کوئی لفظ کہے بغیر ڈائس سے ہٹ گئے۔ میں نے ان کو ساراماجرا سنایا اور کہا کہ یہی کچھ تو میں جج صاحب سے مانگ رہا تھا مگر نہیں مان رہے تھے اور آپ کو کچھ سنے بغیر وہی کچھ آفر کردیا۔ الٹا مجھے بھری عدالت میں ذلیل کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی تھی۔

اگلے روز میں کسی اور مقدمے کے سلسلے میں جسٹس منصور علی شاہ کی عدالت میں گیا تو ان کا اہلمد میرے پاس آگیا اور کہنے لگا کہ سر آپ نے کل ہماری بڑی کلاس کروائی ہے۔ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا تو کہنے لگا کہ آپ نے جس لڑکے اور لڑکی کو سیٹ سے اٹھایا تھا، وہ جج صاحب کا بیٹا تھا اور ساتھ میں اس کی کلاس فیلو تھی۔ مجھے گزشتہ روز اپنے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی وجہ بھی سمجھ آگئی اور اہلمد کو کہا کہ بھائی یہی بات مجھے کل اسی وقت بتادیتے تو نہ تمھاری کلاس ہوتی اور نہ میری کلاس ہوتی۔

اب جب جواد احمد رکشے پر قاضی فائز عیسیٰ کی تصویر لگا کرکہتے پھر رہے ہیں کہ ایسے ہوتے ہیں جج۔ کیا میں بھی کسی رکشے پر یہ کالم اشتہار کی صورت چھپواکر لکھ سکتا ہوں کہ ایسے ہوتے ہیں جج!

مزید :

رائے -کالم -