استعمال سے پہلے، استعمال کے بعد
کالم کا عنوان کسی مہنگے شیمپو یا موٹاپا کم کرنے والی دوا کا اشتہاری سلوگن معلوم ہوتا ہے۔حقیقت میں ایسا نہیں،بلکہ اِس کی شانِ نزول وزیراعظم شہباز شریف کا یہ تازہ حکم نامہ ہے کہ تمام سرکاری دفاتر کو آئندہ ماہ تک پیپر لیس کر دیا جائے۔خبر میں مزید کہا گیا کہ ’ای آفس‘ کی ترویج وفاقی حکومت کی اولین ترجیح ہے،لہٰذا دفتروں میں اِس کے نفاذ میں کسی قسم کی ’سُستی‘ قبول نہیں ہے۔بیان پڑھ کر پیپر لیس کا ترجمہ ’دفتر بے کاغذ‘ کِیا تو یوں لگا کہ ہو نہ ہو آئی ایم ایف نے ٹیکس نیٹ کو پھیلانے کے علاوہ سٹیشنری کا خرچہ گھٹانے کی ترغیب دی ہو گی۔پھر لغوی معنی سوجھے کہ دفتر، خصوصاً جناب فیض کا دفتر جنوں، تو تھا ہی کاغذات کا پلندہ۔بالآخر ہفت زباں وزیراعظم کی یہ انگریزی میری سمجھ میں آئی کہ ای کامرس، ای پاسپورٹ اور ای چالان کی طرح ’ای آفس‘ بھی مفید ایجاد ہے،اِسے مان لینا چاہئے۔
ویسے ہمارا ماننا یا نہ ماننا اُن مقتدیوں سے مختلف نہیں جو نماز کھڑی ہونے پر زیر لب کہتے ہیں،پیچھے اِس امام کے، اور پھر زور کا اللہ اکبر۔وگرنہ جس نسل کی اردو تعلیم تختی پر حروفِ تہجی کی مشق سے ہوئی،اُس کی طرف سے یہ کالم نویس اتنا کہنے کا سزاوار پہلے ہی ہو چکا ہے کہ ”مرزا غالب نے جو خطوط لکھے وہ بنیادی طور پر دوستوں کا حال احوال پوچھنے کے لئے تھے،لیکن انہوں نے اِس عمل میں اردو کو ایسا لب و لہجہ عطاء کر دیا کہ وہ اتنے بڑے شاعر نہ بھی ہوتے تو بطور نثرنگار زندہ رہتے۔مواصلاتی انقلاب کے زور پر تاریخ کے پہیے کو اگر اُلٹا چلا دیا جائے تو پھر غالب کے خطوط کی جگہ غالب کے ایس ایم ایس اور ’غبارِ خاطر‘ کی بجائے ابو الکلام آزاد کی ای میلیں کلاسیکی پیغام رسانی کے نمونے قرار پائیں گی،مگر اردو ادب کتنے بڑے سرمائے سے محروم رہ جائے گا“۔
قصیدہ گوئی سے ہٹ کر عام سرکاری خط کتابت کا شمار شاید کبھی مذکورہ ادب پاروں میں نہیں ہوا۔پھر بھی والد کی دفتری انگریزی کی بدولت بچپن ہی میں یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ کارسپورنڈینس اور نوٹ،یہ دونوں فائلیں الگ الگ ہوتے ہوئے بھی اپنے مندرجات میں واضح مطابقت رکھتی ہیں۔یہی نہیں،بلکہ نوٹ پورشن کے ہر ورق پر روشنائی سے تحریر کردہ صفحہ نمبر ہونا چاہئے،اور نمبر کے گرد دائرہ۔یہ احتیاط اس لئے کہ چھوٹے سے چھوٹا یا بڑے سے بڑا کوئی بھی اہلکار کسی کاغذ پر ہاتھ صاف نہ کرے اور جو کچھ لکھا جا چکا ہے اُس سے انکار ممکن نہ رہے۔قانون کے طالب علم نے وثیقہ نگاری اور عرضی نویسی کا امتحان تو بعد میں پاس کیا،مگر ایم اے کرتے ہی اُس وقت کے کینٹ ڈویژن کا جاری کردہ مفصل ’ہدایت نامہ سیکرٹریٹ‘ ایک نو عمر سیکشن افسر کی معرفت پڑھا اور عجیب سَرور ملا۔
دستاویز کی جامعیت کا اندازہ یوں لگائیں کہ کارسپورنڈینس، نوٹ اور سمری کے لئے نیلگوں، سرخ اور سبز رنگوں کے فائل کوورز کی تلقین کی گئی تھی۔پھر ڈی او لیٹر، آفیشل میمورنڈم، ان اوفیشل میمورنڈم، بشمول ایک وزارت سے دوسری کے نام اُن مکتوبات کے جن کی ابتدا ’ڈیئر ڈویژن‘ کے القاب سے ہونی چاہیے اور انتہاء ’یور موسٹ اوبیڈینٹ سرونٹ‘ پر۔ سب سے کارآمد باب وہ لگا جس میں فیصلہ طلب امور نمٹانے کے طریقہ کار کی نشاندہی کی گئی تھی۔ جیسے یہ وضاحت کہ کون سے امور سیکشن آفیسر کے نوٹ سے شروع ہو کر محض ڈپٹی سیکرٹری تک جائیں گے اور کون سے جوائنٹ سیکرٹری تک۔ ہاں، ایسے معاملے جن کے لئے پیشگی نظیر موجود نہ ہو، سیکرٹری صاحب کی میز پر ابتدائی نوٹ یہ کم ازکم دو سینئر افسروں کی آراء کے ساتھ پہنچنے چاہئیں اور یہ آراء باہم اختلافی بھی ہو سکتی ہیں۔
یہ نہیں کہ آپ کے کالم نگار نے ہدایت نامہ، سیکرٹریٹ پڑھا اور اُسے متروک کتابوں کی الماری میں رکھ دیا۔ نہیں،اُس نے خود بھی رُولز ریگولیشنز کا میچ کھیلا،ایک مرتبہ بولنگ اینڈ سے اور دوسری بار بیٹنگ کریز پر کھڑے ہو کر۔باؤلر کی پٹائی پنڈی کلب گراؤنڈ کے بالمقابل ایف جی سر سید کالج میں ہوئی،جہاں تین ماہ راؤنڈ وکٹ اور اوور دا وکٹ گیندیں پھینک کر نوزائیدہ لیکچرر باضابطہ تنخواہ کی کِلی نہ اڑا سکا۔ اس پر میچ ریفری، پرنسپل ایم ایچ ہمدانی نے بارہویں کھلاڑی کو کیس کا کھوج لگانے کے لئے وزارتِ تعلیم نامی تھرڈ امپائر کے پاس بھیجا۔ لیکچرر لکڑی کی سیڑھی پر چڑھ کر دن بھر منسٹری میں سربفلک شیلفوں کی گرد جھاڑتا رہا،مگر اُس کی فائل،جس نے ڈائری، ڈسپیچ نمبر لگوا کر ڈپٹی ایجوکیشنل ایڈوائزر کے دفتر سے اُڑان بھری، جوائنٹ ایجوکیشنل ایڈوائزر کے کمرے میں لینڈ نہ کر سکی تھی۔
چونکہ یہ ای آفس کے سنہری دور سے پہلے کی بات ہے، اِس لئے کمپیوٹر پر لاٹری نکلے بغیر چند ہی سال میں اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے اسسٹنٹ پروفیسر کی خدمات وزارتِ تعلیم نے مستعار مانگ لیں۔بندہئ ناچیز جس روز وائس چانسلر پروفیسر غلام علی الانہ کے فوری حکم پر چند منٹ کے اندر بھاگم بھاگ منسٹری میں پیش ہوا،اُس دوپہر وزیر تعلیم ڈاکٹر محمد افضل کی صدارت میں ’افکارِ اقبال کی بیرون ملک ترویج‘ کے موضوع پر ایک ’اعلیٰ سطحی‘ اجلاس برپا تھا۔ جمالیاتی ذوق کے مالک ڈاکٹر افضل نے کسی تحریری نوٹیفکیشن کے بغیر مجھے اپنا اکیڈیمک ایڈوائزر مقرر کیا اور اجلاس کی روداد قلمبند کرتے جانے کو کہا۔اس خواہش کا اظہار بھی ہوا کہ آپ دیگر ممتاز شرکاء کے درمیان کھلے ڈُلے ہو کر بیٹھیں تاکہ پی ٹی وی کی سکرین پر اجلاس بھرا بھرا نظر آئے۔
میٹنگ ختم ہوتے ہی مَیں کارروائی کو ضبط ِ تحریر میں لانے کی خاطر سٹاف کے کمرے میں داخل ہوا اور ’آدم بو‘ سائز کا اوولیویٹی ٹائپ رائٹر اٹھانے کی کوشش کی۔ایک اُدھم مچ گیا کہ سر،آپ خود ٹائپ کریں گے۔مجھ جیسے ’کمی مزاج‘ شخص کے لئے یہ ردعمل حیرت ناک تھا۔ وزیر تعلیم میرا مسودہ دیکھ کر خوش تو ہوئے،مگر یہ بھی کہا کہ ایک ’بڑے‘ دفتر میں اس کی نقل خود اُن کی کار پر دے کر آؤں۔اب جو لفٹ کی طرف بڑھا ہوں تو کیا دیکھا کہ ڈرائیور شیر محمد چار منزلوں کا فاصلہ سیڑھیوں سے پھاند رہا ہے۔شاید یہ ڈر تھا کہ مجھ سے پہلے ایک گاڑی پورج میں نہ لگی تو ٹائپنگ کی حرکت کے بعد میری باقی ماندہ افسری بھی زائل ہو سکتی ہے۔ واپسی پر میرے ایماء پہ ہم دونوں اپنی اپنی بشریت کو بحال کرنے کے لئے روز اینڈ جاسمین گارڈن کے نواح میں دودھ پتی اور سموسوں سے فیض یاب ہوئے اور پھر یہی معمول بن گیا۔ظاہر ہے ایسی سرگرمیاں میٹنگ کے تحریری متن کا حصہ نہیں بنتیں۔
بی بی سی میں نئی صدی سے پہلے ہی کمپیوٹر نویسی، موبائل کے استعمال اور ایف ٹی پی کے لئے ریکارڈنگ کی بدولت پیپر لیس آفس میں کام کرنے کی عادت ہو گئی تھی۔اردو ٹائپنگ البتہ بعد میں شروع کی، ورنہ مسودے ہاتھ ہی سے لکھتا رہا،چنانچہ2006ء میں کمپیوٹر وائرس نے حملہ کیا تو سب کچھ کرپٹ ہو گیا اور قریب قریب ہر ٹائپ شدہ انگریزی مراسلہ اور صوتی رپورٹ اپنا وجود کھو بیٹھی۔ البتہ اردو مسودہ، جو پرانے ’ہدایت نامہ ئ سیکرٹریٹ‘ کے مطابق سچ مچ کی نیلگوں، سرخ اور سبز فائلوں میں بند تھے، آج تک محفوظ ہیں۔قوم کو پیپر لیس دفاتر مبارک ہوں لیکن بالفرض اگر وزیراعظم کا لیٹ ٹاپ یا خود ہمارا وزیراعظم آگے پیچھے ہو گیا تو سارے فیصلے، ابتدائی نوٹ اور سینئر افسروں کی تحریری آراء کا ریکارڈ کہاں جائے گا، خاص کر وہ امکانی آراء جن میں کسی مجوزہ منصوبے سے اختلاف کیا گیا ہو؟