بلوچستان وبالِ ِجان؟
بلوچستان ایک رستا ہوا زخم ہے، ایک درپیش مصیبت ہے، ایک سر نہ ہونے والا چیلنج ہے، ایک بلوچ کی سوچ ہے جو اپنی مِلک کو مُلک سمجھتا ہے، اوردور جدید جسے متروک کر چکا ہے وہ بودوباش و روایت ہے۔ بلوچستان سازشوں کا شکار عالمی طاقتوں کا میدان جنگ ہے جو وہاں پب جی کھیل رہی ہیں،جس میں آخر ی آپشن خودکشی ہوتا ہے۔ بلوچستان ایک ایسا کونہ ہے جسے لپیٹ دیا جائے تو پاکستان آدھا رہ جاتا ہے، ایک ایسا دسترخوان ہے جس کے ایک سرے پر انواع و اقسام کے پکوان اور دوسرے سرے پر بھوک سجی ہوئی ہے،ایک طرز زندگی ہے جس میں لوگ قبیلوں اور خاندانوں میں بٹے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے قبیلے کی عظمت کے گن گاتے۔۔۔ سر کٹواتے پائے جاتے ہیں، ایک ایسی جگہ ہے جہاں صوبائی تعصب، قبائلی تفاخر اور رائل بلڈ کا خناس ذہنوں میں بھرا ہوا ہے اور تعصب بھی ایسا کہ راہ چلتے غیر بلوچیوں کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتا ، بلوچستان وبالِ ِجان!
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بلوچستان کے علیحدگی پسند گروہ ریاست کی طاقت کے سامنے کیڑے مکوڑوں سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے، مگر کیا کریں کہ یہ کیڑے مکوڑے ریاست کے ہاتھی کو گرانے کے درپے ہیں اور ریاست کے اندر ریاست کا تصور ذہنوں میں لئے ہاتھ میں بندوق، سر پہ صندوق اٹھائے گوریلا جنگ لڑرہے ہیں۔ ان کا تعصب انہیں چین نہیں لینے دے رہا، انہیں ایک ایسے طرزِ زندگی کی عادت ہو چکی ہے، جس میں سر منہ خاک میں لپٹے ہوتے ہیں، بھوک سے پیٹ کمر کو لگی ہوتی ہے، مگر سر کا شملہ پہاڑوں سے بھی اونچا ہوتاہے، بھوکے کو بھوک نہیں مارتی، مگر بھوکا ہر ایک کو مارنے کے درپے ہوتا ہے، اس کے نزدیک ہر وہ شخص جس کے ہاتھ میں نوالہ ہے، اس کے لئے تر نوالہ ہے۔ذرا علامہ اقبال کی ”بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو“ نکال کر تو پڑھئے جس کا آغاز کچھ یوں ہوتا ہے کہ
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا
جس سمت میں چاہے صفتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
علامہ اقبالؒ کی اس نظم کو آج کے تناظر میں پڑھیں تو بات دشمن قوتوں کی سازش سے کہیں آگے کی محسوس ہوتی ہے۔
چلتے چلتے ذرا غالب کا مزا بھی لے لیجئے کہ
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا میرے ہوتے
گھِستا ہے جبیں خاک پہ دریا میرے آگے
ہمارے سینئر دوست اور وکیل حنیف سلیمی ایڈووکیٹ 70ء کی دہائی میں بلوچستان میں رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تب بھی بلوچستان کے حالات ایسے ہی تھے، غیر بلوچیوں کو اسی طرح جان کے لالے پڑے رہتے تھے۔ اِس حوالے سے انہوں نے کئی ایک واقعات بھی سنائے جو بنگلہ دیش میں مکتی باہنی کے ظلم و ستم سے ملتے جلتے تھے۔ تب بنگلہ دیش میں مکتی باہنی متحرک تھی، آج بلوچستان میں کلبھوشن یادیو نیٹ ورک سرگرم ہے۔ دو قومی نظریہ آج تک برصغیر کو ہضم نہیں ہواہے، اس نے آج بھی شیخ حسینہ واجد کو اگال پھینکا ہے۔ خیر سلیمی صاحب کی رائے ہے کہ بلوچستان میں سیکورٹی اداروں کو فی الفور اپنے آپریٹس کو تبدیل کردینا چاہئے، یہی نہیں، بلکہ ان کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو ان مخبروں سے بھی جان چھڑوانی چاہئے جو دونوں طرف کھیل رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ بلوچستان میں وسائل اور سرمایہ چند سرداروں کے ہاتھ میں تھمانے کی بجائے اسے عوام الناس پر لگایا جائے تاکہ ان میں موجود احساس محرومی کا خاتمہ ہو سکے اور وہ بلوچ سرداروں کی غلامی سے آزادی پا سکیں۔وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے بھی 48 کامن کے افسروں کی بلوچستان میں تعیناتی لازمی قرار دی ہے۔ہماری طرف سے بلوچستان کوپاکستان کا دارالخلافہ بنا دیا جائے، لیکن وہاں امن لے آئیے!
چینیوں کے بارے میں سمجھا جاتاہے کہ ان کے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ بلوچستان میں ان کی بھی پیش نہیں چل رہی، اس کے باوجود کہ سی پیک جیسا منصوبہ بلوچستان پر جا منتج ہوا ہے اور وہاں پر گوادر پورٹ ایسی عالمی فسیلیٹی بھی بن گئی ہے مگر چینی انجینئر بھی بلوچستان میں کام کرنے سے گھبراتے ہیں، کیونکہ جان کسے پیاری نہیں ہوتی۔
جس طرح اہل ایران اپنے سامنے امریکہ کو ہیچ سمجھتے ہیں،اس کی ترقی کو خاطر میں نہیں لاتے اور کہتے ہیں کہ امریکہ تو دو سال پرانی بات ہے اور ہماری شہنشاہیت تو دوہزار سال پرانی ہے،اسی طرح بلوچستان بھی پنجاب کی بالادستی کو کچھ نہیں سمجھتا۔ لہٰذااس تنازعے کو طاقت سے نہیں،محبت سے حل کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لئے کلچرل ایکسچینج ہونا ازحد ضروری ہے۔دیکھئے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک!