قلوپطرہ غالباً فرعون دور کی آخری مضبوط حکمران تھی،جلا وطنی کاٹی، پھر انتہائی چالاکی اور طاقت کے ذریعے بھائی سے کھویا ہوا تخت واپس لے لیا
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:79
قلوپطرہ غالباً فرعون دور کی آخری مضبوط حکمران تھی۔ وہ ایک اور عظیم فرعون بادشاہ پٹولمی کی بیٹی تھی اور اسی کے ساتھ مل کر اس نے کچھ عرصہ مصر پر حکومت بھی کی۔ اس کے بعد اس نے فرعونی رسم و رواج کے مطابق باری باری اپنے دو بھائیوں سے شادی کی اور کچھ عرصہ اس کے سا تھ مل کر ملک کی باگ ڈور چلاتی رہی۔ بعدازاں اس کے ایک بھائی نے ایک سازش کے تحت بغاوت کر کے خود ہی اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اپنی بہن قلوپطرہ کو ملک بدر کر دیا۔اپنی جلا وطنی کے دور میں اس نے ایک طاقتور رومن جنرل جولیس سیزر کے ساتھ تعلقات استوار کیے اور پھر اس سے شادی بھی کر لی اور اس کی مدد سے انتہائی چالاکی، محلاتی سازشوں اور طاقت کے ذریعے اس نے اپنے بھائی سے ایک بار پھر اپنا کھویا ہوا تخت واپس لے لیا۔ کچھ عرصے تک اس نے جولیس سیزر کے ساتھ مل کرحکومت کی اور پھر اپنے ایک بیٹے کو اس کے ساتھ ملا کر مصر کا مشترکہ حکمران بنوا دیا۔
بعد میں جب جولیس سیزر قتل ہوا، تو اس نے مارک انتھونی سے شادی کر لی جو اس زمانے کا ایک نامور سیاست دان اور جولیس سیزر کا وفادار تھا۔ قلوپطرہ انتھونی سے والہانہ محبت کرتی تھی، جو تاریخ میں ایک مثال بن گئی تھی۔ اس سے اس کے پانچ بیٹے ہوئے جن میں سے کچھ باری باری اپنے باپ کے بعد حکمران بنے۔
احمد اور بھی بڑا کچھ بتانا چاہتا تھا۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ اپنی یونیورسٹی میں پڑھائی جانے والی قلوپطرہ کی تاریخ فرفر بیان کر دیتا۔ میں بیک وقت اتنے سارے کردار اور واقعات سن کر پریشان ہوگیا تھا اور میں انہیں ہضم نہیں کر پا رہا تھا۔ میرے ذہن میں قلوپطرہ کا جو خوبصورت نقشہ بنا ہوا تھا وہ بھی دھندلانے لگا تو میں نے احمد کو کہا کہ بیچ کے سارے قصے ایک طرف رکھ کر مجھے اس کہانی کا آخری باب سنائے کہ اس حسین ملکہ کا انجام کیا ہوا تھا۔ کیا اس نے واقعی ہی اپنے آپ کو سانپوں سے ڈسوا کر موت کو گلے لگایا تھا جیساکہ کتابوں میں تحریر ہوا اور مشہور زمانہ فلم میں دکھایا گیا تھا۔ وہ مسکرایا اور مختصر لفظوں میں یہ کہہ کر اس کا قصہ تمام کر دیا کہ جب مارک انتھونی اپنے دشمنوں کے خلاف ایک جنگ میں مصروف تھا توایک سازش کے تحت اس تک یہ جھوٹی اطلاع پہنچائی گئی کہ قلوپطرہ کی موت واقع ہو گئی ہے، جس سے وہ بہت دلبرداشتہ ہوا اور میدان جنگ میں ہی اس نے اپنی تلوار پیٹ میں گھونپ کرخودکشی کر لی۔ اور جب قلوپطرہ کو اس واقعہ کا علم ہوا تو اس کو اپنے محبوب کی المناک موت کا اتنا صدمہ ہوا کہ اس نے بھی موت کو گلے لگانے کا فیصلہ کر لیا۔
یہاں بھی3 طرح کی باتیں مشہور ہیں، ایک تو یہ کہ اس نے اپنے جسم پر کوئی زہریلی مرہم مل لی تھی جو جلد کے اند ر سے جسم میں سرائیت کر گئی اور اس کی موت کا سبب بنی۔ کچھ نے کہا کہ وہ دو انتہائی زہریلے مصری شیش ناگ سانپوں کے کاٹنے سے مری جو اس نے اپنے جسم پر چھوڑ لئے تھے۔ تاہم کچھ تاریخ دان یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتے رہے ہیں کہ ایک محلاتی سازش کے تحت اس کو زہر دے کرمارا گیا تھا۔سچ کیا ہے کچھ پتہ نہیں۔اب یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ کس بات میں کہاں تک سچائی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ مصر کی تاریخ میں اپنا ایک ایسا شاندار مگر بے حد پراسرار کردار چھوڑ گئی تھی، جس کو کوئی سمجھ ہی نہ سکا۔ اتنی ہنگامہ خیز اور مصروف سیاسی زندگی گزرنے کے باوجود مصر کی یہ عظیم ملکہ بھی چالیس سال سے زیادہ عمر نہ پاسکی۔ اس کے جاتے ہی مصری فرعونوں کی حاکمیت کا ایک طویل اور تاریخی دور ختم ہوا۔ اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت رومنوں نے اپنے ملک کے ساتھ ملا کر مصر کو مستقل طور پر اپنی مملکت کا ایک حصہ بنا لیا اور اسکندریہ کو اس کا پائیہ تخت بنا دیا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں