پاکستانی دیہاتوں کے مسائل(قسط 1)
اس وقت پاکستان کی کل آبادی کا لگ بھگ 62 فیصد دیہات پر مشتمل ہے۔ جہاں آج بھی زیادہ تر لوگ پرانے رسم و رواج اور دیہاتی ماحول کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں۔گو کہ اب ہر گھر تک موبائل فون پہنچ چکے ہیں۔زیادہ تر جگہوں پر انٹرنیٹ کی سہولت ہے اور ہر عمر کے لوگ سوشل میڈیا کا استعمال بھی کرتے ہیں لیکن پھر بھی دیہات میں معلومات کا فقدان ہے۔جس کی بڑی وجہ حکومتوں کی طرف سے عوام کے بنیادی حق درست معلومات کا نہ دینا ہے۔دیہات کی زندگی کا مکمل احاطہ کرنا بہت مشکل ہے۔دیہاتی ماحول میں جہاں زندگی کا اپنا ایک مزہ ہے۔صحت افزا فضا ہوتی ہے۔وہی لاتعداد مسائل بھی پیدا ہو چکے ہیں۔اگر ہم پوری دنیا کی بات کریں تو اس وقت دنیا کی کل آبادی کا 38 فیصد دیہاتوں پر مشتمل ہے۔ یورپ، کینیڈا،امریکہ،جاپان،نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ ممالک میں دیہاتی زندگی بہت آسان ہو چکی ہے،کیونکہ ان کے ہر گھر تک انفراسٹرکچر، بجلی، گیس، نیٹ سمیت تمام بنیادی سہولیات فراہم کی گئی ہیں اور اس کے ساتھ دیہاتی ماحول بھی برقرار ہے۔انہیں بڑے شہروں کا رخ صرف روزگار کے لیے کرنا پڑتا ہے۔ یا پھر کئی نوجوان لڑکے لڑکیاں شہری ماحول اور ہلا گلہ پسند کرتے ہیں اس لیے وہ شہروں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ برصغیر اور کئی افریقی ممالک کے بیشتر دیہات بنیادی سہولیات سے مرحوم ہیں اس لیے ان کے ہاں مسائل جنم لیتے ہیں۔ہم اپنے دیہات کے مسائل، ان کی وجوہات اور ان کے حل کا جائزہ لیتے ہیں۔پاکستان کی شہری اور دیہاتی زندگی میں فرق ہے۔شہروں میں رہنے والوں کو روزگار کے مواقع روزمرہ کے استعمال کی اشیا، بازار اورتعلیم کی سہولت، علاج معالجہ کی سہولیات اور پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت قریب مل جاتے ہیں۔جبکہ دیہات میں رہنے والوں کے لیے ان سہولیات تک پہنچنا آسان نہیں ہے۔دوسری طرف دیہات میں رہنے والوں کو جو قدرتی ماحول میسر ہوتا ہے وہ شہر میں رہنے والوں کے نصیب میں نہیں ہے، گو کہ اب دیہاتوں کے اندر بھی پلاسٹک، پیمپر اور گندے پانی نے فضا کو مکدر کر دیا ہے لیکن پھر بھی درخت، کھلی فضا اور لہلہاتے کھیت دیہات کی خوبصورتی اور سانس لینے میں آسانی کا سبب ہیں۔ پاکستان کے دیہاتوں میں جو مسائل پیدا ہوئے ہیں اس کا سبب حکومت کی عدم توجہی کے ساتھ ساتھ خود دیہاتوں میں رہنے والے لوگ بھی ہیں۔یونکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے اندر مثبت سوج کی بجائے منفی سوچ میں اضافہ ہوا ہے۔کچھ مسائل تو ایسے ہوتے ہیں جن کا حل حکومتی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہوتا ہے۔لیکن ہمارے دیہاتوں میں زیادہ تر مسائل ایسے ہیں جو ہماری ذاتی یا اجتماعی کوششوں سے حل ہو سکتے ہیں کیونکہ کئی مسائل کا مجموعہ ہم خود خرید کر یا اللہ واسطے سے اپنے گھروں میں لے آتے ہیں۔ہماری زیادہ تر بیماریاں بھی ایسی ہیں جو ہم خود خرید کر یا اپنی مرضی سے مفت میں لاتے ہیں۔اس لیے ان مسائل کا حل اور بیماریوں کا علاج بھی ہمارے اپنے ہی اختیار میں ہوتا ہے۔ اس کالم کے اندر ہم چند ایک ایسے مسائل کی نشاندہی کریں گے جن کی وجہ سے دیہات میں رہنے والے پریشانی اور اذیت میں مبتلا رہتے ہیں۔
اول زیادہ تر لوگ طبعی بیماریوں کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں،کیونکہ ہماری ریاست نے صحت کا کام ٹھیکیداروں کو ٹھیکے پر دے رکھا ہے،جنہوں نے علاج اتنا مہنگا رکھا ہوا ہے کہ بندہ بیماری کو بھول کر بل کی ٹینشن سے مر سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دیہات میں رہ کر بھی بندہ بیمار کیوں کر ہوتا ہے؟ اگر ہم 6 دہائیاں پیچھے کا جائزہ لیں تو دیہاتوں میں کسی نے شوگر، کینسر، بلڈ پریشر، جوڑوں کے درد، بواسیر، ہیپاٹائٹس اور دل کی بیماریوں جیسی موذی بیماریوں کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دیہاتی لوگ محنتی ہوتے تھے۔سخت کام کر کے اتنا پسینہ بہاتے تھے کہ ان کے جسموں سے تمام فاسد مادہ نکل جاتا تھا۔خوراک میں اپنی زمینوں سے اگائی گئی خالص اجناس، ساگ، گھر کی سبزیاں، گھر کی بھینس، گائے اور بکری کا دودھ، مکھن اور گھی اس طرح خالص ہوتا تھا کہ جانور خالص قدرتی خوراک کھاتے تھے۔ اور دودھ دھونے کے بعد کوئی انسان اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں کرتا تھا۔
لوگ خالص اور سادہ خوراک کم مقدار میں کھاتے تھے۔راتوں کو جلدی سونا اور صبح صادق کو اٹھ جانا ہر کسی کی روٹین ہوتی تھی۔زیادہ تر گھر پتھر، مٹی یا کچی اینٹوں کے بنے ہوتے تھے۔ جو سردی اور گرمی کو روکتے تھے۔گرمیوں میں زیادہ تر لوگ درختوں کی گھنی چھاؤں میں ڈیرے ڈال دیتے ان درختوں میں کئی پھلدار درخت جیسے آم اور جامن بھی ہوتے تھے۔جن کی چھاؤں کے مزے لینے کے ساتھ ساتھ بہت مزے کا پھل بھی کھاتے تھے۔پھر کیا ہوا 70 کی دہائی میں دیہاتی نوجوان دوبئی، سعودی عرب اور دوسری خلیجی ریاستوں میں گئے، کئی یورپ کی طرف نکل گئے وہاں سے پیسہ آیا، رہن سہن بدلے، زمینداری اور مال مویشی کا کام بدتریج کم ہوتا گیا، مکان پکے ہوتے گئے۔دیہاتوں کی سب سے بڑی خوبی سانجھداری ختم ہونے لگی، یہ سانجھداری کھیتوں میں کام کرنے، مکانات کی چھتیں ڈالنے، کنویں سے پانی لانے اور دوسرے کئی سانجھے کام مل کر کرنے میں ہوا کرتی تھی۔ و گھر گھر نلکے لگنے اور کھیتوں کو غیر آباد کرنے اور گھر پکے کروانے سے ختم ہوتی گئی۔خواتیں پردے کرنے لگیں، بسوں میں اکٹھے سفر کرنے کی جگہ اپنی اپنی بائیکس اور گاڑیوں نے لے لی، دیہاتیوں نے زمینداری اور سخت کام کرنے کو توہین سمجھنا شروع کر دیا، نوجوان نکمے ہو کر آوارہ گردی کرنے لگے کیونکہ ان کے باپ یا بڑے بھائی بیرون ملک سے پیسے جو بھیجتے تھے۔آبادی بڑھنے سے زرعی اراضی پر مکان بنتے گئے اور فصلوں میں کمی آتی گئی۔اس کے بعد ہم نئی نئی بیماریوں میں مبتلا ہوتے گئے۔اب سوال یہ بھی ہے کہ نوجوانوں کے بیرون ممالک جانے سے جو خوشحالی آئی کیا وہ غلط تھی؟ نہیں وہ غلط نہیں تھی لیکن ہمارے طریقے غلط تھے۔ (جاری ہے)