”آپ کل سے کام پر آ جائیں“میں حیرانگی سے دیکھ رہا تھا اور وہ مسکرا رہے تھے، اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں اتنامختصر انٹرویو آج تک نہیں بھگتایا تھا

 ”آپ کل سے کام پر آ جائیں“میں حیرانگی سے دیکھ رہا تھا اور وہ مسکرا رہے تھے، ...
 ”آپ کل سے کام پر آ جائیں“میں حیرانگی سے دیکھ رہا تھا اور وہ مسکرا رہے تھے، اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں اتنامختصر انٹرویو آج تک نہیں بھگتایا تھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:319
آخر میں مجھے کہا گیا کہ فی الحال اور تو کوئی جگہ آپ کے معیار کی خالی نہیں ہے آپ ہمارے ٹریننگ سنٹر میں آ جائیں اور ایک آسٹریلین مینجر کے ساتھ مل کر ہسپتال کے ملازمین کی تربیت کے پروگرام ترتیب دیں کیونکہ ایک بڑے ہسپتال میں کام کرنے کی وجہ سے یہ کام آپ بطریق احسن کر سکتے ہیں۔ میری نظر میں یہ کوئی ایسا خاص کام نہیں تھا اور نہ ہی اس میں بظاہر کوئی اطمینان بخش صورت حال نظر آتی تھی۔ میں ان کو بعد میں آنے کا کہہ کر وہاں سے اُٹھ آیا۔اور دوبارہ اس سلسلے میں کبھی ادھر کا رخ نہ کیا۔کم از کم اس وقت مجھے بہت مایوسی ہوئی تھی۔
ایک اور ہسپتال
انھی دنوں لاہور میں ایک نیا ہسپتال کھلا تھاجوبہت خوبصورت اور دوسرے ہسپتالوں سے قدرے مختلف اور جدید سہولتوں سے مزین تھا۔ سنا تھا کہ یہاں کی اعلیٰ انتظامیہ باہر سے آئے ہوئے ڈاکٹروں پر مشتمل ہے۔ میں نے سوچا کہ وہاں بھی کوشش کر کے دیکھ لی جائے، کیا حرج ہے۔ پھر وہاں ملازمت کی درخواست دے دی، اور فوراً ہی مجھے انٹرویو کے لیے بلا لیا گیا، ہسپتال میں ایڈمنسٹریٹر کی آسامی خالی تھی، اسی مناسبت سے میں خوب بن سنور کے اور سخت گرمی میں بھی سوٹ پہن کر وہاں پہنچ گیا۔ مجھے انٹرویو کے لیے ہسپتال کے چیئرمین ڈاکٹر جاوید اصغر اور چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر غضنفر شاہ کے حضور پیش ہونا تھا۔ دونوں ڈاکٹر صاحبان نے، جو ہسپتال کے مالکان میں سے بھی تھے، سرسری سی نظر سے میرا بائیوڈیٹا دیکھا، چائے کا پوچھا، اور پھر وہ دونوں کسی مریض کے ایکسرے لے کر بیٹھ گئے اور آپس میں اس کے بارے میں کچھ تبادلہئ خیال کرنے لگے، اور کرتے ہی چلے گئے۔ مجھ سے ابھی تک انھوں نے ابتدائی سلام دعا کے علاوہ اور کچھ بھی نہ پوچھا تھا۔ میں بے چینی سے ان کے سامنے بیٹھا اپنے آپ کو متوقع مگر سخت سوالات کے لیے تیار کر رہا تھا کیونکہ یہ ایک بہت ہی ذمہ دار آسامی تھی جس میں سارے ہسپتال کی عمومی انتظامیہ میرے اختیارمیں آنے والی تھی اور میں اس کے لیے نہ صرف تیار تھا بلکہ پُر اعتماد بھی تھا۔ کافی دیر بعد جب وہ لوگ فارغ ہوئے تو میں نے پوچھا کہ میرے لیے کیا حکم ہے۔ انھوں نے ایک ادائے بے نیازی سے کندھے اچکائے اور کہا کہ”آپ کل سے کام پر آ جائیں“۔میں خوشگوار حیرانگی سے ان کو دیکھ رہا تھا اور وہ دونوں مسکرا رہے تھے۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں اتنامختصر انٹرویو میں نے آج تک نہیں بھگتایا تھا۔ 
اتنی آسانی سے ایک ذمہ دار ملازمت کا مل جانا ایک معجزہ ہی تھا، میں سمجھتا تھا کہ شاید میری قابلیت کی بنیاد پر ہی یہ سب کچھ ممکن ہوا لیکن پھر حقیقت پسندانہ سوچ یہ بھی تھی کہ میری قابلیت کا تو ابھی تک امتحان ہوا ہی نہیں تھا۔ اللہ کی بے نیاز ذات سے میں کبھی مایوس نہیں ہوا تھا،مجھے یکدم احساس ہوا کہ اس بار بھی اس نے چپکے سے میرے حق میں کی جانے والی اپنی رحمتوں میں ایک اور کا اضافہ کر دیا تھا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -