یہ مشرف کا دور تھا ضلعی بلدیاتی ادارے کام کر رہے تھے، نچلی سطح پر ہی فیصلے ہو جاتے تھے، اعلیٰ افسروں کیساتھ گفت و شنید ہوئی،یہ عوام کی بہتر نمائندگی کرتا تھا

 یہ مشرف کا دور تھا ضلعی بلدیاتی ادارے کام کر رہے تھے، نچلی سطح پر ہی فیصلے ہو ...
 یہ مشرف کا دور تھا ضلعی بلدیاتی ادارے کام کر رہے تھے، نچلی سطح پر ہی فیصلے ہو جاتے تھے، اعلیٰ افسروں کیساتھ گفت و شنید ہوئی،یہ عوام کی بہتر نمائندگی کرتا تھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:150
پیشہ وارانہ مصروفیات
میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی باقاعدہ ملازمت اختیار نہیں کروں گا اور خاص طور پر سرکار کی نوکری تو بالکل بھی نہیں کرنا ہے۔ مگر پھر مختصر مدت کے کچھ دلچسپ اور چیلنج والے مواقع سامنے آئے اور میں نے ان کو اللہ کی طرف سے ایک تحفہ سمجھ کر قبول کرلیا۔
پنجاب پلاننگ ایکٹ
اپنی طویل اور پیشہ وارانہ دوڑ دھوپ میں،میں نے محسوس کیا کہ مقامی منصوبہ بندی کے لیے کچھ قوانین ضروری ہیں۔ لیکن اس پر کبھی بھی کوئی کام نہ کیا جا سکا۔  2022 ء میں حکومت پنجاب نے اس کی ضرورت کو محسوس کیا۔ اس سلسلے میں مجھ سے رابطہ کیا گیا اور کہا گیا کہ میں اس موضوع پر ایک قلیل المدتی مشاورت سے اس قانون کے نفاذ کے لیے ایک قابل عمل مسودہ تیار کروں۔ میں نے ایک ماہر قانون دان کے ساتھ مل کر اس پر کام شروع کیا۔ اس مختصر سے منصوبے کے لیے میں حکومت پنجاب کے مختلف ڈیپارٹمنٹ سیکریٹریوں اور دوسرے اعلیٰ حکام سے ملا جنہوں نے اس قسم کا قانون بنانے میں کافی معاونت کی اور اس کی ضرورت پر زور دیا۔ یہ ایک بہت حوصلہ افزاء بات تھی جس میں ان تمام پلانرز کی کوششیں قابل تحسین ہیں جنھوں نے اس سلسلے میں ایک لمبے عرصے کی منصوبہ بندی کی آگاہی دی۔ اس مسودے کی رو سے ایک واحد انتظامی ادارہ ہو گا جو سارے صوبے کی مقامی منصوبہ بندی کی نگرانی کرے گا۔اس مسودے میں اس کی تیاری کے اصول اور ضابطے طے کیے گئے ہیں جس کی رو سے اس پلان کی تیاری، منظوری، نفاذ اور بعد ازاں ہر سطح پر نظر ثانی کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان سفارشات پر عمل کرکے پنجاب میں ایک ایک وسیع پلاننگ سسٹم قائم ہو گا جو متعدد حصے داروں اور عام عوام کے حقوق کا تحفظ کرے گا۔
مینیجنگ ایشین سٹیز کیس سٹڈی آف پاکستان
اس جائزے کا اہتمام و انصرام اور ضروری رقم کی فراہمی ایشیئن بینک نے کی تھی۔ یہ پروگرام  2006 ء میں 6 ملکوں کے لیے جاری ہوا تھا جس میں پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ فلپائن اور چین شامل تھے۔ دراصل یہ 26 ملکوں کے بارے میں کئے جانے والے ایک ہمہ گیر جائزے کا ایک حصہ تھا۔ مجھے پاکستان پر اپنی توجہ مرکوز رکھنا تھی جس کے لیے مجھے ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی خدمات بھی حاصل تھیں۔ بینک نے اس سلسلے میں تمام ہدایات،خاکہ اور جائزے کے نتائج کے بارے میں واضح طور پر بتا دیا تھا۔ جس میں اس ملک کا پروفائل،2 منتخب شہروں کا تفصیلی جائزہ، اور سفارشات پیش کرنا تھیں۔ ہم نے اس سلسلے میں 2شہر فیصل آباد اور کراچی اس جائزے کے لیے منتخب کئے۔ یہ مشرف کا دور تھا اور اس میں ضلعی بلدیاتی ادارے کام کر رہے تھے اور صوبائی سطح کے کئی ادارے اب اس نظام کے تحت کام کر رہے تھے۔ جس سے نچلی سطح پر ہی فیصلے ہو جاتے تھے۔ ضلعی حکومت کا سربراہ ناظم ہوتا تھا جو عوام کے براہ راست ووٹ سے منتخب ہوتا تھا۔ سول سروس کی ڈپٹی کمشنر کی ایک طاقتور آسامی کا نام بھی بدل کر ڈسٹرکٹ کو آرڈینیشن افسر ہو گیا تھا۔ میرے خیال میں یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک بہترین بلدیاتی نظام تھا۔ میں اس نتیجے پر اپنے تحقیقاتی جائزے اور مقامی اعلیٰ افسروں کے ساتھ گفت و شنید کے بعد پہنچا تھا۔یہ عوام کی بہتر نمائندگی کرتا تھا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -