جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر 38
میں نہیں سمجھ سکا تھا کہ اس روز میں اتنی جلدی بیدار کیسے ہوگیا ۔کس چیز کی کشش تھی ۔وہ ننھی گول مٹول سی گڑیا جیسی لڑکی .... جو مجھے قرآن حفظ کرانا چاہتی تھی یا حافظ صاحب کے تعویذات کا اثر تھا ۔۔۔۔اماں نے مجھے فجر کے وقت بیدار کیا ،غسل کرایا اور سفید کپڑے پہنا کر ان پر عطر لگایا ،سر پر رومال باندھا ،آنکھوں میں سرمہ لگایا اور مجھے آئینے کے سامنے کھڑا کیا ۔سرمہ لگانے سے ایک بار تو میری آنکھیں بند ہوگئیں ،چبھن ہوئی اور آنسو بھی ٹپکے ،میں نے منہ بسور اتو اماں نے کہا کہ سرمہ لگانا سنت ہے۔اس سے آنکھوں میں نور آتا ہے ۔میرے چہرے پر پیلاہٹ تھی،آنکھوں کے گرد سیاہ چھائیاں تھیں لیکن وضو اور غسل کے بعد اس لباس میں میرا حلیہ ایک پاکیزہ اور معصوم بچے کا نقشہ پیش کررہا تھا ۔
میں کافی دیر تک آئےنے کے سامنے کھڑا رہا ۔کوئی ا ور بات ذہن میں نہیں آئی سوائے اسکے کہ یہ میں ہوں .... میں نے پہلی بار خود کو غور سے دیکھا تھا ،آئینہ دیکھنا تو بھول ہی گیا تھا۔بہت بدلا ہوا لگ رہا تھا ۔
” چل آ میرے لعل پہلے ناشتہ کرلے پھر تجھے چھوڑ آوں “ اماں کے چہرے پر شفیق ممتا مہک رہی تھی ۔ناشتے کے بعد وہ مجھے حافظ صاحب کے پاس مسجد میں چھوڑ نے چل دیں ۔یہ بہت بڑی مسجد نہیں تھا ۔اند رمحراب والا بڑاکمرہ تھا اور اسکے باہر برآمدہ۔حافظ صاحب کا حجرہ اور چھوٹا سا گھر مسجد کے ساتھ ہی تھا ،اسکا ایک راستہ انکے حجرے سے نکلتا تھا ۔حجرہ گھر اور مسجد کے درمیان میں تھا ،جب کوئی سائل آتا تو وہ نہ مسجد میں اسکو بیٹھاتے نہ گھر لےجاتے ،حجرہ میں اسکی خاطر مدارت کرتے اور تعویذ دیکر رخصت کرتے تھے ۔
جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر 37
مسجد میں میرے علاوہ بھی پانچ لڑکے تھے ۔ان میں سے تین مجھ سے چھوٹے اور دو ہم عمر دکھائی دیتے تھے ۔یوں اب ہم چھ لڑکے ہوگئے تھے ۔اس وقت حافظ صاحب ایک بچے کا سبق دہروا رہے تھے ۔وہ لہک لہک کر آیات پڑھتا تو غلطی پر اسکو ٹوکتے ،ہمیں دیکھا تو اشارہ کیا کہ بیٹھ جائیں ۔چند منٹ بعد انہوں نے اماں سے کہا ” آپ جائیں بہن ،یہ اب ادھر ہی رہے گا شام تک ،اسکی فکر نہ کرنا دوپہر کا کھانا اسکو یہیں مل جایا کرے گا “
اماں نے ممنونیت سے حافظ صاحب کا شکریہ ادا کیا ،دونوں ہاتھ اٹھا کر انکے لئے اور میرے لئے دعا کی اور گھر چلی گئی۔یہ میرا پہلا دن تھا ۔حافظ صاحب نے جس صف میں دو بچے بیٹھے تھے ،مجھے ان کے ساتھ بیٹھا دیا ۔میرے سامنے بھی تین تھے اور اب ادھر بھی تین بچے ،درمیاں میں لکڑی کی لمبی سے چوکی نما ریل تھی جس پر سیپارے رکھے سبھی اپنے اپنے اپنے اسباق میں مصروف تھے ۔میں نے محسوس کیا کہ مجھے گھبراہٹ ہورہی ہے ۔میرے اندر انجانا سا خوف پیدا ہورہا تھا ۔موسم گرم نہیں تھا ۔معمولی ساٹھنڈا تھا لیکن مجھے اندر سے کپکپاہٹ محسوس ہورہی تھی ۔شاید کمزوری تھی لیکن یہ کمزوری نہیں بلکہ اس سحرو انگار کا نتیجہ تھا جس میں میرا بچپنا گزرتا آرہا تھا لیکن اب یکایک میں نور و رحمت کے سائے میں آرہا تھا تو میری رگوں میں گندہ خون بے چینی پیدا کررہاتھا ،حافظ صاحب کا دم کیا ہوا پانی اور تعویذ استعمال ہورہا تھا لیکن یہ شیطانی اثر جاتے جاتے جاتا ہے ۔
حافظ صاحب گاہے گاہے مجھے دیکھتے بھی جاتے تھے ۔جب پانچوں بچوں سے وہ سبق سن چکے تومجھے پاس بلایا ۔شفقت سے میری پیٹھ تھپکی اور کہا ” شاباش ،میرے بیٹے ڈرنا نہیں اب ۔اب تم اللہ کی پناہ میں ہو۔تم جن چیزوں کو کھلونا سمجھ کر ان سے کھیلتے رہے ہو وہ کھیلنے والی چیزیں نہیں تھیں۔وہ شیطان کے کھلونے تھے ۔خیراس میں تمہارا بھی اتنا قصور نہیں ۔میرے اللہ نے چاہا تو تجھ پر ظلم کرنے والا اللہ کی پکڑ میں آئے گا ۔“
حافظ صاحب مجھے دلاسہ دے رہے تھے لیکن میں اندر تک دہل رہا تھا ۔میں اپنی کیفیت کو چھپا نہیں پارہا تھا بلکہ میرے اندر حشر برپا ہوتا ہوا وہ بھی دیکھ رہے تھے ۔اچانک وہ بولے ” عبداللہ اٹھو اورسات ٹونٹیوں کا پانی لیکر آو“
مجھ سے بڑی عمر کاایک لڑکااٹھا اور انتہائی ا دب سے اس نے کہا ” جی قبلہ ابھی لایا “
عبداللہ حافظ صاحب کے حجرے میں گیااور ایک بڑا سا پیالہ لیکر وضو خانے کی طرف گیا ۔اس وقت تو مجھے سات ٹونٹیوں کے پانی کا علم نہیں تھالیکن بعد میں معلوم ہوا کہ مسجد وضو خانے کی سات ٹونٹیوں سے جو پانی لیا جاتا ہے وہ بھی ایک زور اثر عمل ہے ۔کسی جادو اور جنون کے زیر اثر آنے والے کواس پانی پر معوذتین پڑھ کردم کیا جاتا ہے اور پانی پلا کر اسکا علاج کیا جاتا ہے ۔بعد میں نے بھی یہ عمل سیکھا تھا ۔دراصل اس کے لئے صدیوں سے روحانی عاملیں ساتھ کنووں کا پانی لیکر اس پر معوذتین دم کیا کرتے تھے ۔یا پھر ساتھ گھروں کے پانی سے بھی یہ کام لیا جاتا تھا لیکن جب مساجد میں وضو خانے قائم ہوگئے تو وضو خانے کی سات ٹونٹیوں سے یہ پانی لیا جانے لگا ۔اسکو رحمت والا بخشش والا پانی کہا جاتا ہے ۔
عبداللہ پانی لے آیا تو حافظ صاحب نے اس پر دم کیا اور مجھے پلایا ۔اندر کے جنون کی وجہ سے مجھے اس وقت شدید پیاس لگ رہی تھی اور لیکن جونہی حافظ صاحب نے پانی کا پیالا مجھے دیا میں نے پینے سے انکار کردیا،اس وقت ایک اور کام ہوگیا ۔میری آواز ہی بھرا گئی تھی۔حافظ صاحب نے چونک کر دیکھا اور فوری طور عبداللہ اور اسکے ساتھ دوسرے بچے ناصر کو پکارا اور کہا” اس کا حصار کرو اور سورہ مزمل پڑھنا شروع کرو“
عبداللہ اور ناصر دونوں تربیت یافتہ تھے ۔تبھی تو انہوں نے حافظ صاحب کی ہدایت پر عمل کیا ۔دونوں کو سورہ مزمل زبانی یاد تھی۔وہ میرے گرد گھومنے لگے اور ساتھ ساتھ سورہ مزمل پڑھتے جاتے ۔عبداللہ بہت خوش الحان تھا ۔اسکی آواز میں مٹھاس اور تاثیر تھی۔اس دوران حافظ صاحب نے پیالا اپنے ہاتھوں میں تھامے رکھا ۔میں نے محسوس کیا کہ میں ہوں تو ہوش میں لیکن میرے اندر کوئی ہلچل مچارہا ہے ،میرے کاندھوں سے ،سینے سے ،ناف سے اعضا پھڑک رہے تھے اور وہاں سے جلد یوں اٹھ رہی تھی جیسے پانی ابلتا ہے ۔کوئی چیز میرے بدن سے باہر نکلنا چاہ رہی تھی ۔مجھ پر تشنج کی ایسی کیفیت تھی کہ نہ میں نڈھال ہورہا تھا نہ چوکنا ۔تھوڑا سا مجہولانہ اور بے بسی کاانداز تھا۔میرے جسم کو سورہ مزمل کے روحانی عمل سے باندھ دیا گیا تھا اور میں اندر ہی اندر چیخ و پکار کرتا ہوا اس کیفیت کو برداشت کرتا رہا ۔کچھ دیر بعد دونوں رکے تو اس دوران مجھ پر نقاہت طاری ہوگئی ،اندر کا شور تھم گیا ،حافظ صاحب نے مجھے پانی پلایا اور پھر اپنے ساتھ لگا لیا” بہادر بچے ہو ۔اتنا زور برداشت کرگئے ہو ورنہ اس حالت میں تو پہلوانوں کا بھی دم نکل جاتا ہے ۔شاباش ہمت قائم رکھنا “
انکے پہلو سے لگ کر مجھے بے حد سکون ملا بھیا ۔۔۔۔ایسا سکون جس میں پدرانہ اور بزرگانہ شفقت تھی ۔حافظ صاحب کے روحانی وجود کا لمس میرے لئے انتہائی اہم ہوگیا تھا ۔انہوں نے کافی دیر تک مجھے اپنے پہلو میں بیٹھائے رکھا اور ساتھ ساتھ دم بھی کرتے جاتے اور بچوں سے سبق بھی سنتے جاتے ۔
” عبداللہ آج سے تم بابر حسین کا خیال رکھا کروگے ۔سمجھ گئے ناں “ عبداللہ نے سر جھکا کر اقرار میں سر ہلایا۔عبداللہ کی آنکھوں میں بڑی چمک تھی،کشادہ پیشانی ،دبلا پتلا اور انتہائی سرعت سے حکم بجالانے والا۔ وہ قرآن پاک حفظ کرچکا تھا اور اب قرآت سیکھ رہا تھا ۔لیکن اس دوران حافظ صاحب نے اسے بہت سے روحانی علوم بھی سکھادئےے تھے ۔وہ ایک طرح سے ان کا نائب بن چکا تھا ۔بے حد ذہین اور تحمل مزاج ۔۔۔
دوپہر ہوئی تو اندر سے کھانا آگیا ۔میں بڑا بے قراری سے اس انتظار میں رہا کہ کھانے کے بعد وہ گڑیا بھی آئے گی اور کہے گی کہ چائے لاوں ،پانی لاوں لیکن نہیں آئی وہ۔یہ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ دوپہر کے وقت سکول سے واپس آتی تھی ۔حافظ صاحب نے اسکو دوسرے محلہ کے سکول میں پڑھنے کے لئے داخل کرایا تھا ۔نما زعصر کے بعد وہ وہ قرآن پڑھنے آتی تھی۔ دوپہر کا کھانا میں نے عبداللہ کے ساتھ کھایا ۔وہ بڑا چوکنا ہوکر مجھے کھانا کھلاتا رہا تھا ۔مجھ سے باتیں بھی کرتا رہا۔اسکی باتوں سے مجھے بڑا حوصلہ ملا ۔جب ہم کھانا کھا چکے تو نماز ظہر کا وقت ہوگیا ۔ہم سب وضو کے لئے وضوخانہ میں گئے تومیں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں صرف تین ٹونٹیاں تھیں جس پر تین لوگ ہی ایک وقت میں وضو کرسکتے تھے ۔میں بھی اپنی باری میں تھا کہ باقی بچے وضو کرلیں تو میں بھی وضو کرلوں ،ویسے بھی مجھے وضو میں دیر لگنی تھی کیونکہ میں نے آج اماں سے پہلی بار وضو کرنا سیکھا تھا لیکن ابھی ماہر نہیں ہوا تھا۔میں نے عبداللہ سے کہا تھا کہ وہ مجھے وضو کرنا سیکھا دے ۔باقی بچے وضو کرکے چلے گئے تو عبداللہ نے پہلے خود وضو کیا اورہدایت کی کہ میں اسکو دیکھتا جاوں وضو کیسے کیا جاتا ہے ۔ اسکے بعد اس نے مجھے وضو باندھنا سکھایا ۔اس نے مجھے تھپکی دی اور کہا ” بہت اچھا ۔تم بہت جلد سیکھ لیتے ہو “
”عبداللہ بھائی “ میں نے وضو کے بعد پوچھا ” یہ تو تین ٹونٹیاں ہیں ۔آپ تو سات ٹونٹیوں سے پانی لیکر آئے تھے ناں “
یہ سنتے ہی پہلے تو عبداللہ کی آنکھوں میں غیر معمولی چمک پیدا ہوئی اورپھر وہ کچھ بولنے ہی لگاتھا کہ اچانک یہ بات سن کرہمارے پیچھے کھڑا ناصرہنس پڑا” بتا ناں حافظ کہ کہاں سے لایا تھا سات ٹونٹیوں کا پانی ،چل میرے علاوہ ایک اور آگیا ہے تم سے سوال کرنے والا“
حیرت انگیز طور پر عبداللہ نے صرف مسکرانے تک اکتفا کیا ۔نہ جانے ا سمیں کیا راز تھا ،کیسی حکمت تھی ،وہ ایسا کیا کام کرتا تھا جس کا جواب وہ ناصر کو بھی نہیں دیا کرتا تھا.... شاید یہ راز راز ہی رہتا اور عبداللہ کی شخصیت سے پردہ شاید نہ ہی اٹھتا مگر ایک دن غضب ہوگیا اور مجھ پر یہ بھید کھل گیا کہ عبداللہ ہم انسانوں میں سے نہیں ہے ۔اس راز کا حافظ صاحب کے بعد دوسرا گواہ صرف میں تھا ۔اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ عبداللہ کون ہے ۔(جاری ہے )
جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر 39 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں