پُر شکوہ مسجد میں گمراہ کی نماز
مسجد اللہ کا گھر ہے، مگر اللہ کے بندوں کا گھر بھی ہے۔ قائد ِ اعظم محمد علی جناح کا خیال تو یہی تھا۔ چنانچہ پاکستان بننے سے ایک سال پہلے جب دیگر رہنماؤں کے ساتھ برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی سے ملاقات کے لیے لندن گئے تو انہوں نے جمعہ کی نماز کسی ایسی مسجد میں نماز ادا کرنی چاہی جہاں عام مسلمان نماز پڑھتے ہوں۔ اب قائد کے بنائے ہوئے ملک میں نئی صدی کے دوران خالق و مخلوق کے باہم مِلنے کے راستے مسدود ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ سوچیں گے کہ میرا اشارہ مسالک کی تقسیم در تقسیم کی طرف ہے۔ اِس زاویے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر نجی، سرکاری اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ والی بستیوں میں پیچیدگی کے بعض اور اسباب بھی ہیں۔ سب سے نمایاں ہے نو دولتیاپن اور اُس سے جُڑے ہوئے رویّے۔
بات سمجھ میں نہ آئے تو کسی دن لاہور کے اُس رہائشی علاقے میں تشریف لے آئیے جہاں مَیں پھولوں سے لدی پھندی ایک مسجد کے نواح میں جنٹری میں پھنسا ہوا ہوں۔ یعنی وہ بزنس مین، ریٹائرڈ افسر اور خوشحال تاجر جو ڈونکی پمپ لگا کر ہر صبح ہمسایوں کے حصے کا پانی کھینچ لیتے ہیں، لیکن اِس سے فارغ ہوتے ہی ’تزئینِ در و بامِ ِ حرم‘ پر توجہ دینے سے بھی نہیں چو کتے۔ ایک مرتبہ اِس بندہء عاجز نے عدالت عظمی میں ایکسٹینشن لینے والے ایک معمر دوست کو اُس جرگے میں شامل دیکھا جو مسجد کمیٹی کے صدر کو منانے کے لیے اُن کے گھر کی طرف تیز تیز جا رہا تھا۔ پتا چلا کہ مذکورہ حاجی صاحب نے ہماری مسجد میں ائر کنڈیشنر لگوانے والوں میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی ہے، اِس لیے اُن کی ناراضی افورڈ نہیں کی جا سکتی۔
کلب کلاس کے اِن نمازیوں سے بھلا عام مسلمانوں کا کیا موازنہ جو سال میں اگر دس دفعہ اللہ کے گھر گئے تو پانچ موقعوں پر کوئی نہ کوئی پروسیجرل غلطی نکلوا کر ہی لوٹے۔ اکثریت اُن کمزور ایمان والوں کی ہوتی ہے جنہیں محض عید بقرعید پر حاضری کی بنا پر والد مرحوم ’فصلی بٹیرے‘ کہا کرتے تھے۔ فصلی اور اصلی کا حقیقی فرق اُس دن نمازِ عصر کے وقت سمجھ میں آیا جب پہلی صف میں ’قبضہ گروپ‘ کے ایک معزز آدمی نے مجھے کُہنی رسید کرتے ہوئے پیچھے دھکیل دیا تھا۔ سلام پھیرتے ہی البتہ میرے پاس آئے اور وضعداری سے کہنے لگے ”معاف کیجیے، مَیں نماز کے لیے ہمیشہ یہیں کھڑا ہوتا ہوں۔“
اُس مرحلے پر مجھے آبائی شہر میں ٹبہ سیداں کی وہ چھوٹی سی مسجد بہت یاد آئی جہاں اہلِ محلہ میں سے کسی کے نجی سیکٹر میں امامت کرنے پر کوئی پابندی نہ تھی۔ پروفیسر مجید اور مستری عبدل تو تھے ہی باشرع بزرگ، لیکن میرا دوست افتخار بٹ گواہی دے گا کہ مسجد بابا اعظم میں لوگوں نے لالہ اسلم کو بھی ماڈرن چہرے کے ساتھ نماز پڑھاتے دیکھا۔ اِسی طرح ذات برادری اور خاندانی پس منظر سے ہٹ کر ایک ایک کر کے سبھی لڑکے اذان کہنے کے اعزاز کا بے چینی سے انتظار کرتے۔ ساٹھ کی دہائی کے وسط میں مسجد میں لاؤڈ اسپیکر نصب ہو ا تو حمد و نعت کی محفل میں جمعہ کی پہلی اذان سے پیشتر صوفی تبسم، اسماعیل میرٹھی اور حامد اللہ افسر کی نظمیں بھی ترنم سے نشر ہونے لگیں۔
میرا مقصد اُن نیک روحوں سے چھیڑ خوانی نہیں جنہیں ہر تمدنی سرگرمی میں بدعت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ پر شہرِ اقبال میں، جس کی قدیم مساجد میں جنات کی بورڈنگ لاجنگ کی روایات روزمرہ کہانیوں کا حصہ تھیں، اپنی مسجد کے ساتھ ہمارا رشتہ خوف کا نہیں، پیار محبت کا رہا۔ جب دل چاہتا، بچے یوں بے تابی سے بھاگتے ہوئے مسجد کے صحن میں داخل ہو جاتے جیسے کھیل کے میدان کا ر خ کرتے ہیں۔ یہاں دین و اخلاق کی باتیں سننے کو ملتیں، لیکن ناظرہ قرآن کے استاد لطیف اور ان کے نائب ’بھا لمبڑ‘ یا بھائی نمبردار سے ہلکی پھلکی گپ شپ بھی ہو جایا کرتی۔ زیاد ہ تر یہ کہ عید میلاد ؐالنبی سجاوٹ کے لیے کتنی جھنڈیاں تیار ہوں گی اور قرآنی قاعدہ ختم کرکے پہلا سیپارہ شروع ہونے پر کون چینی کی ریوڑیاں لائے گا اور کون گُڑ کی۔
یہ تھا ہماری گلی کا لوک اسلام۔ مغرب کی طرف بڑھیں تو اراضی یعقوب کی سبز ٹیوب لائٹ والی مسجد، سو ڈیڑھ سو گز پر پاپڑاں والی خانقاہ اور اُس سے آگے امام علی الحق کا سفید گنبد والا مزار جس کے میدان میں ہر جمعرات کو میلہ لگتا۔ مشرق میں پہلے ٹبہ جالیاں اور پھر سیڑھیاں اتر کر محلہ ککے زئیاں کی مسجد۔ ذرا شمال کو اقبال روڈ کے کونے میں نبئیے ٹُنڈے کی مسیت، ذرا آگے کچی مسجد، پھر اڈہ پسروریاں کا امام باڑہ۔ بھائی حنیف مہتہ کی دکان کے بالمقابل موٹے موٹے منکوں کی مالا والے سائیں شِیدا ڈیرہ جماتے جنہوں نے میرے والد کے بچپن میں چالیس دن قبر میں چلہ کاٹ کر شہر بھر پہ روحانی دہشت طاری کر دی تھی۔ ہم نے اپنے زمانے میں باقاعدہ نمازی کم ہی دیکھے مگر اِس کا حساب کوئی نہ رکھتا کہ کون مسجد میں گیا اور کون نہیں۔
آزاد پاکستان کی پہلی نسل کی یہ یادیں اُن مسجدوں کی ہیں جہاں عام مسلمان نماز ادا کیا کرتے تھے۔ اب اللہ کے پرانے گھر نئی آبادی کی گرینڈ مساجد سے بہت دُور رہ گئے ہیں۔ وجہ یہ کہ گرینڈ مسجد کے قریب پہنچتے ہی خوفِ خدا کی بجائے دلوں پر کار پارک کی کشادگی، لان کی شادابی اور فنِ تعمیر کی ہیبت طاری ہونے لگتی ہے۔ دو سال ہوئے ایک جمہور مسلمان نے اپنے نیک سیرت ماموں زاد بھائی کی دعوت پر ایک جدید خانہء خدا کے ایئر کنڈیشنرز کے سائے میں عشا کی نماز ادا تو کی، لیکن اُس نیم تکونے ہال میں جس کا مشرق مغرب سمجھنا آسان نہیں، یہ ڈر بھی رہا کہ کِہیں واپسی کا راستہ نہ بھول جاؤں۔
جوتے تلاش کر کے کامیابی سے باہر تو نکل آئے، لیکن میرے مولا، ہم دونوں کی بیویاں معینہ جگہ سے غائب تھیں۔ دراصل مسجد کے احاطے میں پہنچ کر یہ پیشگی سوچ لیا تھا کہ عمارت کے زنانہ اور مردانہ حصوں میں نماز سے فارغ ہو کر ایک طے شدہ مقام پر ملاقات ہو گی۔ پریشانی ہوئی کہ کئی منٹ کے انتطار کے باوجود دور و نزدیک بیگمات کا کوئی نام و نشان نہ ملا۔ موبائل فون خاموش تھے جس کا سبب مسجد کا احترام تھا یا یہ امکان کہ دونوں فی الوقت کسی پُر شور جگہ پر ہیں۔ بالآخر دوسرا اندازہ درست ثابت ہوا اور خواتین مسجد کی ملحقہ کیفے ٹیریا سے باہر نکلیں، مگر مُوڈ آف تھا۔ پوچھا کہ نماز پڑھ لی؟ ”پڑھی مگر لان میں، مسجد کے اندر نہیں۔“ مَیں سمجھ گیا کہ کوئی گھمبیر سمسیا ہے۔
معلوم ہوا کہ مسجد میں باریابی سے انکار سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ہوا، اِس لیے کہ ہینڈ بیگ اندر لے جانے کی اجازت نہیں۔ اِس پر میری بھابھی نے جو خیر سے پولیٹکل سائنس پڑھاتی ہیں، باوردی گارڈ کو باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ مذکورہ تھیلے ہینڈ بیگ کی بجائے پرس کے زمرے میں آتے ہیں، پھر بھی تلاشی لے لو۔ بیگم نے یہ دلیل بھی دی کہ چلیں، ہمارے پاس تو کار ہے جس میں سامان رکھا جا سکتا ہے، لیکن جو عورتیں موٹر سائیکل یا رکشے پہ بیٹھ کر آتی ہیں وہ کیا کریں۔ گارڈ نے انکار میں سر ہلا دیا تھا۔ اِس پر بندہ ء عاجز کی آنکھوں میں قائد کی شبیہ ابھری جنہوں نے لندن میں اُس مسجد میں جمعہ پڑھنے کی خواہش کی تھی جہاں عام مسلمان نماز ادا کرتے ہیں۔