سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ:فکری، علمی، انقلابی رہنما
مومن کی پہچان یہ ہے کہ جب اسے موت آتی ہے تو وہ نفسِ مطمئنہ اور اللہ سے ملاقات کے لئے اس کے لبوں پر مسکراہٹ ہوتی ہے وہ موت سے نہیں ڈرتا مسکراتے ہوئے موت کا استقبال کرتا ہے اور اللہ کے پسندیدہ بندوں کو دنیا سے اللہ کے بندے عظیم الشان اہتمام، غم، صدمہ اور اپنی بے پناہ دعاﺅں سے رخصت کرتے ہیں۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اسلامی افکار و نظریات کا حسین گل دستہ تھے۔ ان کی پوری زندگی اقامتِ دین کی تڑپ، مربیانہ اور داعیانہ احساس ذمہ داری، رجوع الی اللہ اور ان کی ہر تحریر میں دین حق کی خدمت اور دعوت عام کرنے کا جذبہ تھا ان کی ساری زندگی پر یہ خیال غالب نظر آتا ہے کہ ”اللہ ان سے دین کی خدمت لے لے“۔
حقیقت یہ ہے کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ طویل جدوجہد، دین کی اشاعت میں راستے کی مشکلات، حکمرانوں، فوجی آمروں کی مسلط کردہ سختیوں، عشق مصطفی، ختم نبوت کے تحفظ کی جدوجہد میں پھانسی گھاٹ، مختلف جیلوں، ہتھ کڑیوں، آہنی سلاخوں اور پس دیوارِ زنداں رہتے ہوئے اور انسانوں میں ایک شاندار بھرپور زندگی گزار کر (22ستمبر1979ئ) کو اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئے، لاکھوں عقیدت مندوں نے دعاﺅں، آنسوﺅں، سسکیوں، غم و اندوہ کے پہاڑ محسوس کرتے ہوئے اللہ کی جانب، کبھی ختم نہ ہونے والی زندگی کی طرف انہیں رخصت کیا۔ دنیا بھر سے عقیدت مند، ملک بھر سے دینی، سیاسی اور سماجی رہنما، دانشور، نوجوان طلبہ خصوصاً پورا لاہور قذافی اسٹیڈیم میں مولانا مودودیؒ کے جنازہ میں شرکت کے لئے امڈ آیا۔ عالم عرب کے عظیم دانشور ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے نمازہ جنازہ کی امامت کرائی۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کو ان کی موت کے بعد شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ پوری دنیا میں موت العالمِ، موت العاَلم کی پکارتھی۔مولانا مودودیؒ کی زندگی میں ہی برصغیر کے نامور خطیب نامور دانشور صحافی آغا شورش کاشمیری نے شاندار الفاظ میں ان کا تعارف یوں کرایا:
”نام ابوالاعلیٰ، قد درمیانہ، رنگ گورا، آنکھیں روشن، لیکن ان پر چشمہ سونے پرسہاگہ، داڑھی مسجع، ماتھا کھلا، بال پٹے دار، چال پروقار، آہستہ خرام بلکہ مخرام، خوش پوشاک، خوش خوراک، زبان شستہ، لہجہ رفتہ، قلم کے دھنی، خطابت کے غنی، جماعت اسلامی کے روحِ رواں، باالفاظ دیگر میر کارواں، تامل و تذبذب سے بے زار ، نہ زندہ باد کے تمنائی نہ مردہ باد سے خائف، نہ رعب کھاتے نہ رعب ڈالتے۔ قلم مصور، دماغ منور، تقریریں کڑک نہ بھڑک، تقریر کی طرح بکھرتے چلے جاتے ہیں، لکھنے میںتلوار اور گرز دونوں سے کام لیتے ہیں، عام لیڈروںسے مختلف ہیں، ان لیڈروں کی طرح نہیں جو گھروںمیں عوام کو کالانعام کہتے ہیں اور اخبار میں پیغام دیتے ہیں۔ انہوں نے سیاست کو انتخاب نہیں بلکہ سیاست نے انہیں انتخاب کیا ہے۔ ان کی یہ سب سے بڑی خوبی ہے کہ جرا¿ت کے ساتھ اپنی کہتے، صبر کے ساتھ دوسروں کی سنتے ہیں۔ آبائی وطن دہلی مرحوم، مولود و مسکن اورنگ آباد، بھوپا ل میں مصرع طرح تجویز کیا۔ جبل پور میں قافیہ اٹھایا، بجنور میں گرہ لگائی، دہلی میں مطلع ہو گیا اور اب لاہور میں اس طویل نظم کے مقطع کی فکر میں ہیں جس کا عنوان ہے ”جماعت اسلامی“ ....!
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بےزار کرے
(اقبالؒ)
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بیسویں صدی کے اہم اور نمایاں اسلامی مفکرین میں سے ہیں۔ قرآن مجید کے ممتاز مفسر کی حیثیت سے انہوں نے انسانی زندگی کے تمام شعبوں بالخصوص سیاسی، معاشی، آئینی، قانونی، عمرانی ، اخلاقی اور تہذیب و ثقافت کے پہلوﺅںکو اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے اجاگر کیا۔انہوں نے اہل ایمان میں یہ یقین راسخ کرنے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی کہ اسلام ایک کامل ضابطہ حیات ہے، سید مودودیؒ کی پوری زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کے پورے نظام حیات کو دینی و عقلی دلائل کے ساتھ دور حاضر کی زبان میں پیش کیا۔ انہوں نے دور جدید کے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اوراسلام، قرآن و سنت کی برتری اور فوقیت کو ثابت کیا۔ پھر سب سے بڑھ کر اسلامی نظام کی فطری تشریح وو ضاحت بھی کی ہے بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ دور حاضر میں اسلامی نظام کیسے قائم ہو سکتا ہے اور آج کے اداروں، نظام ریاست کو کس طرح اسلام کے سانچوںمیں ڈھالا جا سکتا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں اور فکر سے ان کے سیاسی افکار، اسلامی نظام کے قیام کے خدوخال، جماعت اسلامی کی سیاسی جدوجہد اور اس کے نصب العین کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے اس کے چند پہلو یہ ہیں:
1۔حاکمیت: حاکمیت اور خودمختاری ایک اہم سیاسی تصور ہے مولانا مودودیؒ نے واضح کیا ہے کہ آزادی اور حاکمیت کو مترادف قرار نہیں دیا جا سکتا، اقتدار ریاست کی ملکیت نہیں یہ صرف اللہ کی مِلک ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی متوازن، درست، ابدی، موثر، کارگر اور انسانوں کو آسودگی عطا کرنے والے قوانین بنانے والی ذاتِ بااختیار ہے کسی شخص کا یہ حق تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ وہ حکم دے اور دوسرے اس کی اطاعت کریں وہ قانون بنائے اور دوسرے اس کی پابندی کریں، یہ اختیار صرف اورصرف اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے ۔ قرآن کریم سورہ یوسف کی آیت نمبر40 میں ابدی حکم دے دیا گیا ہے ”فرمانروائی کا اختیاراللہ کے سوا کسی کے لئے نہیں۔ اس کا حکم ہے کہ اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو یہی ٹھیک سیدھا طریقہ زندگی ہے۔“
2۔لادینیت: سیکولرازم ایک ایسا نظریہ ہے جو معاشرے، ریاست اور اجتماعی زندگی کو مذہب سے جدا کر دیتا ہے۔ یہ عقیدہ یا نظریہ کلیسا اور ریاست میں طویل کشمکش اور جنگ کا نتیجہ ہے۔ سید مودودیؒ کی رائے میں کلیسا اور ریاست یا سائنس اور مذہب کی یہ کشمکش اسلام سے غیر متعلق ہے ۔ یہ افسوسناک معرکہ در اصل روایت پرست اور جمود زدہ عیسائیت اور عقل و استدلال کے درمیان لڑا گیا۔ اس کے برعکس اسلام محض ایک مذہب نہیں ہے بلکہ یہ ایک کامل ضابطہ حیات ہے ۔ قرآن کریم نے اسلام کو ”الدین “ قرار دیاہے ۔ قرآن کریم اللہ کی آخری کتاب ہے ۔ محمد اللہ کے آخری نبی ہیں ۔ یہ امر بہت واضح کر دیا گیاہے کہ قرآن کا دعویٰ یہ نہیں ہے کہ اللہ کے نزدیک اسلام ایک طریق زندگی ہے بلکہ اس کا دعویٰ یہ ہے کہ اسلام ہی ایک حقیقی اور صحیح طریق زندگی اور طرز فکر و عمل ہے ۔ اسلام کی تعلیمات ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات تخلیق کی ہے اور وہی اس کا نظم و نسق چلارہاہے ۔ یہ اسلام کا مستقل زاویہ نگاہ ہے ۔ اہل مغرب نے لادینیت کے جو تجربے کیے ہیں ان کے نتیجے میں مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھ گئے ، الجھ گئے ہیں اس کا نتیجہ ہے کہ فکر و خیالات میں تشکیک ، اقدار میں الجھاﺅ ، معیارمیں پستی اور مصلحت پسندی ، اخلاق و رویوں میں سفلہ پن اور ڈیموکریسی اور ڈپلومیسی میں موقع پرستی، ظلم جبر ، ناانصافی اور حقوق کی پامالی نے جڑ پکڑ لی ہے ۔ لادینیت ، سیکولرازم کی بنیاد پر ریاست اور انسانوں کی معاشرت سے مذہب کی بالادستی کو بے دخل کر کے زندگی کے توازن او رسکون کو درہم برہم کر دیاگیاہے ۔
3۔جمہوریت : مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ان تمام نکات سے اتفاق کرتے ہیں جس کے ذریعے ان امور پر اتفاق ہے کہ جمہوریت حکومت چلانے کی ایک شکل ہے ۔ جمہوریت جمہور کے ذریعے جمہورکی حکومت ہے اور اگر عملی سطح پر دیکھا جائے تو حکومت عوام کی منتخب کردہ ہو ، لوگوں کو حکومت کی غلطیوں پر تنقید کا حق حاصل ہو ، ریاستی اختیارات فرد واحد میں مرتکز نہ ہوں ، بلکہ اختیارات کی متوازن تقسیم ہو ، شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق محفوظ ہوں اور عدلیہ کو مکمل آزادی حاصل ہو ۔ حکومت کی تبدیلی فوجی یا بندوق کی طاقت سے نہیں صرف عوام کی رائے سے ہو ۔ مولانا مودودیؒ نے اپنے افکار میں یہ بھی دوٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ کوئی شخص ، خاندان ، گروہ ، چند مراعات یافتہ طبقات ، ریاست کی ساری آبادی مل کر بھی حاکمیت کی مالک نہیں ہے ۔ حاکم اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ ہیں ، رعایا نے انہی اصولوں کے تحت اپنا نظام چلاناہے ۔ اسلام کا تصور جمہوریت مغرب کے طرز جمہوریت سے مختلف ہے ۔ اسلام میں جمہوریت سے مراد اللہ کی حاکمیت ، عوام کی خلافت ، بنیادی قوانین اللہ کے احکامات ہیں ، عوام ان قوانین کی بنیاد پر نیابت اور نمائندگی کا حق استعمال کرتے ہوئے نفاذ کے پابند ہیں ۔
4۔اسلامی ریاست کا تصور :اسلامی ریاست کا تصور سید مودودی کی سیاسی فکر اور جدوجہد کا بنیادی نکتہ ہے ۔ وہ اسلام کو کامل ضابطہ حیات کے طور پر پیش کرتے ہیں جس کا عملی اظہار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ، سیرت مبارکہ اور اسلوب حیات طیبہ سے ملتاہے ۔ مولانا مودودی ؒ کا یہ پختہ ایمان ہے کہ اسلامی سیاسی نظام تمام زمانوں اور ہر قسم کے حالات میں قابل عمل ہے ۔ یہ کبھی متروک نہیں ہوسکتا یہ اتنا معقول ، منطقی ، مفید اور کارگر ہے کہ جس سے انسانی معاشرے انفرادی اور اجتماعی بنیاد پر خصوصاً ریاستی نظام انسانوں کی تعلیم ، معاش، آزادی ، انصاف اور بنیادی حقوق کا تحفظ ممکن ہو سکتاہے ۔ اسلامی ریاست میں اقتدار کا تصور اور مقصد یہ ہے کہ اللہ کی بندگی ، نماز کے قیام ، انسانوں کی فلاح زکوة و صدقات ، انسانی معاشروں کو ظلم ، بربریت ، ناانصافی اور معاشی جرائم سے نجات کے لئے نیکی عام کرنے ، برائی مٹانے کا نام ہے اسی سے ریاست میں متوازن اور اجتماعی عدل کا نظام قائم ہوسکتاہے ۔ مولانا مودودی ؒ نے یہ گرہ کھول کر رکھد ی کہ :۔
” فوجداری قانون اللہ کا دین ہے ۔ معلوم ہوا کہ صرف نماز ، روزہ اور حج و زکوة ہی دین نہیں ہیں ریاست کاقانون بھی دین ہے ۔ دین کو قائم کرنا صرف نماز ہی قائم کرنانہیں بلکہ اللہ کا قانون اور شریعت قائم کرنا بھی ہے ۔ جہاں یہ چیز قائم نہ ہو وہاں نماز اگر قائم بھی ہو تو گویا ادھورا دین قائم ہوا۔ جہاں اس کو رد کر کے دوسرا کوئی قانون اختیار کیا جائے وہاں کچھ اور نہیں خوداللہ کے دیں کو رد کر دیا گیا ....(تفہیم القرآن جلد سوئم ،ص:243)
آج ملت اسلامیہ خصوصاً اسلامیان پاکستان کے لئے مصائب ، مشکلات ، آزمائش اسی وجہ سے ہے کہ ایمان ، قول اور فعل میں تضاد ہے ۔ اسلامی ریاست حقیقت میں اللہ کے احکامات کے نفاذ اور مخلوق خدا کے لئے آسانیاں ، انصاف اور متوازن نظام فراہم کرنے کا نام ہے ۔
5۔انتخا ب قیادت اور طریقہ کار :سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے عصر حاضر میں مسلمانوں کو اللہ کی مرضی کے مطابق چلانے کے لئے ریاست کا مفہوم ، ریاستی نظام کا خاکہ ، جمہوری اور آئینی تقاضے ، آئین کی تشکیل اور حفاظت ، طریقہ انتخاب ، ریاست اور شہریوں کے حقوق کو قرآن وسنت کی روشنی میں ترتیب دے کر مسلمانان عالم کے لئے فکری و عملی کام بڑی حد تک مکمل کیا ہے جس کے تحت مزید علمی تحقیقی کام ہوسکتے ہیں لیکن جس جماعت اسلامی کے وہ خود بانی تھے انہوں نے اپنی جماعت ، جدوجہد اور طریقہ کار کی حدود و قیود ، دستور جماعت اسلامی کے ذریعے متعین کر دیئے ، آ ج تک جماعت اسلامی اسی دائرہ کا رمیں جدوجہد کی پابند ہے ۔ جماعت اسلامی کا مستقل طریقہ کار یہ ہے :۔
o۔وہ کسی امر کا فیصلہ کرنے یا قدم اٹھانے سے پہلے یہ دیکھے گی کہ اللہ اور رسول کی ہدایت کیاہے ۔
o ۔اپنے مقصد ، منزل اور نصب العین کے حصول کے لئے کوئی ایسا طریقہ اور ذرائع استعمال نہیں کرے گی جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو ۔
o ۔جماعت اسلامی معاشرہ میں اصلاح اور انقلاب کے لئے جمہوری ، آئینی ، دعوت و تبلیغ ، تطہیر افکار ، تعمیر کردار کا ذریعہ اختیار کرے گی ۔
o ۔جماعت اسلامی اپنی جدوجہد میں خفیہ تحریکوں ، طاقت اور قوت سے اپنے نقطہ نظر کو مسلط کرنے کی بجائے کھلم کھلا اور اعلانیہ کام کر ے گی ۔
o ۔شفاف ، غیر جانبدار انہ ، آزادانہ انتخابات ، جاگیرداروں ، وڈیروں ، مال و دولت کی سیاسی بالادستی سے نجات کے لئے متناسب طرز انتخاب اور انتخاب کے مرحلہ پر نمائندگی کے لئے ممبران کے چناﺅ میں امیدوار کے لئے آئین کے آرٹیکل 62-63 پر پختہ یقین رکھتی ہے ۔
مولانا سیدمودودی ؒ کے افکار اور جماعت اسلامی کی جدوجہد کے مطابق :۔
غیر مسلم باشندگان مملکت پاکستان میں غیر مسلم باشندگان کو حدو د و قانون کے اندر مذہب و عبادت ، تہذیب و ثقافت اور مذہبی تعلیم کی پوری آزادی ہوگی ۔ غیر مسلموں کو اپنے شخصی معاملات کا فیصلہ اپنے مذہبی قانون یا رسم و رواج کے مطابق کرنے کا حق ہوگا۔