مقام ابراہیم ۔۔۔ تاریخ و فضیلت

مقام ابراہیم ۔۔۔ تاریخ و فضیلت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مولانا عبداللہ مکی
لفظ مقام کا اطلاق جگہ پر بھی ہوتا ہے یعنی وہ جگہ جہاں سیدنا ابراہیم ؑ کعبۃ اللہ کی تعمیر کے دوران مقیم رہے اس کا اطلاق اس پتھر پر بھی ہوتا ہے جس پر ٹھہر کر سیدنا ابراہیمؑ نے کعبۃ اللہ کی دیواریں تعمیر کی تھیں۔ تاریخ میں مذکور ہے کہ جب سیدنا ابراہیمؑ اور سیدنا اسماعیلؑ نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے کعبۃ اللہ کی تعمیر شروع کی تو سیدنا اسماعیلؑ پتھر اٹھا کر دیتے جاتے اور سیدنا ابراہیمؑ دیوار تعمیر کرتے جب دیوار اونچی ہو گئی تو یہ پتھر لایا گیا جس پر کھڑے ہو کر سیدنا ابراہیمؑ نے دیواریں مکمل کیں بتایا جاتا ہے کہ جوں جوں دیوار اونچی ہوتی گئی یہ پتھر بھی اونچا ہوتا گیا۔ پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس پتھر میں اپنی خصوصی نشانیاں ثبت کر دیں
امام فخر الرازی اپنی تفسیر میں کہتے ہیں کہ یہ ایک پتھر ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی متعدد نشانیوں کو لیے ہوئے ہے نیز اس پر سیدنا ابراہیمؑ کے نقش پا کا وجود اس بات کی علامت ہے کہ اس کعبۃ اللہ کے صحیح جانشین معمار کعبۃ اللہ سیدنا ابراہیمؑ اور ان کے پیروکار ہیں۔
امام ابن کثیر البدایہ والنہایۃ میں لکھتے ہیں کہ
مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس کے پاس امام کا مصلیٰ ہوتا ہے یہ وہ پتھر ہے جس پر سیدنا ابراہیمؑ نے کھڑے ہو کر بیت اللہ کی تعمیر کی تھی جب دیوار اونچی ہونے لگی تو سیدنا اسماعیلؑ یہ پتھر لے آئے تا کہ سیدنا ابراہیمؑ اس پر کھڑے ہو کر مزید دیوار کی تعمیر کر سکیں اور سیدنا اسماعیلؑ نیچے کھڑے ہو کر دیوار میں لگانے والے پتھر دینے لگے۔ جب انہوں نے ایک جانب کی دیوار مکمل کی تو دوسری جانب چلے گئے اس طرح بیت اللہ کے چاروں جانب کی دیواریں اس پتھر پر کھڑے ہو کر مکمل فرمائیں۔
مقام ابراہیم دعا کی قبولیت کا مقام ہے مشہور تابعی امام حسن البصریؒ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ پندرہ ایسے مقامات ہیں جہاں کی جانے والی دعائیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے پاس درجہ قبولیت پاتی ہیں ان میں سے ایک مقام ابراہیم بھی ہے۔ چنانچہ کئی ایک علماء اور فقہاء نے طواف کعبہ کے بعد مقام ابراہیم کے پاس پڑھی جانے والی دو رکعت نماز کے بعد دعا کرنے کو مستحب فعل قرار دیا ہے۔ نبوت سے قبل دور نبوت میں اور بعد میں یہ پتھر کعبۃ اللہ میں کس مقام پر رکھا ہوا تھا اس میں متعدد اور متضاد روایات ملتی ہیں جن کو شیخ سائد بکداش نے اپنی کتاب حجر اسود ومقام ابراہیم میں نقل کیا ہے۔ ان تمام روایات میں سے اس روایت کو قابل ترجیح قرار دیا ہے جس کی رو سے مقام ابراہیم کی جگہ سیدنا ابراہیمؑ کے دور میں وہی تھی جو آج ہے۔ اسی طرح دور نبوت ابوبکر وعمرؑ کے دور تک یہ پتھر اسی جگہ موجود تھا جہاں آج ہے۔ یہاں تک کہ سیدنا عمرؓکے دور میں آنے والا سیلاب اس پتھر کو مکہ مکرمہ کے زیریں حصہ میں بہا لے گیا جس کو بعد میں اسی پرانے مقام پر نصب کر دیا گیا۔
سائد بکدوش اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں کہ مرور ایام کے باوجود حرم مکہ میں اللہ تعالیٰ کی باقی رہ جانے والی نشانیوں میں سے یہ ایک پتھر ہے جس پر سیدنا ابراہیم کے نقش پا ثبت ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے ایک معجزہ بنا دیا کہ جب سیدنا ابراہیمؑ اس پتھر پر کھڑے ہوئے تو وہ عام پتھروں کی طرح سخت تھا مگر سیدنا ابراہیمؑ کے اس پر کھڑے ہونے کے بعد وہ موم کی طرح نرم پڑ گیا اور ان کے قدم مبارک کے نشان اس پر ثبت ہو گئے اور دوبارہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس پتھر کو اسی طرح سخت کر دیا جیسے پہلے تھا۔
چونکہ پچھلے دور میں یہ پتھر کھلی جگہ رکھا ہوا تھا جس کے تقدس کی وجہ سے زائرین کعبہ اس پر اپنے ہاتھ پھیرا کرتے چنانچہ اب اس پتھر سے قدموں کے واضح نشان مٹ چکے ہیں اور ان کی جگہ چند حلقے رہ گئے ہیں۔ ویسے بھی قدموں کی انگلیوں کے واضح نشان صحابہ کرامؓ کے دور تک موجود رہے۔ چنانچہ موطا ابن رہت میں یونس بن شہاب سے اور وہ سیدنا انسؓ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے مقام ابراہیم میں انگلیوں اور ایڑیوں کے نشان دیکھے ہیں جو لوگوں کے بار بار چھونے سے مدھم پڑ چکے ہیں۔
مکہ مکرمہ کے معروف مورخ شیخ محمد طاہر الکروی اس پتھر کا کھلے طور پر مشاہدہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ
میرا قیاس یہ کہتا ہے کہ سیدنا ابراہیمؑ کا قد ہمارے دَور کے عام انسانوں کے قد کے برابر ہی تھا نہ وہ زیادہ طویل القامت تھے اور نہ ہی پست قد چنانچہ رسول اکرمؐ بھی اپنے جد امجد ابراہیمؑ سے اپنے قد وقامت میں مشابہت رکھتے تھے۔
صحیح بخاری کی حدیث ہے رسول اکرمؐ واقعہ معراج کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابراہیمؑ کو دیکھا چنانچہ ان کی اولاد میں ان کی شباہت رکھنے والا میں نے اپنے آپ ہی کو پایا۔
شیخ سائد بکداش نے تفسیر البحر المحیط نیز سیوطی کی الدر المنثور سے یہ روایت سیدنا عبداللہ بن عباس اور سیدنا عبداللہ بن سلام نے یہ قول نقل کیا ہے کہ تعمیر کعبہ کے موقع پر سیدنا ابراہیمؑ جوں جوں کعبہ کی دیوار کو اونچا کر رہے تھے اسی طرح یہ پتھر بھی اپنی قامت میں اونچا ہوا جا رہا تھا اور اس پتھر پر کھڑے ہو کر سیدنا ابراہیمؑ نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم کے مطابق ساری دنیا کے لوگوں میں حج کا اعلان فرمایا تھا۔
مقام ابراہیمؑ سے متعلق قرآن مجید میں مذکور آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’پہلا گھر جو لوگوں کے لیے تعمیر کیا گیا مکہ میں جو مبارک اور رہنمائی کرنے والا ہے دونوں جہانوں کے لیے جس میں واضح نشانیاں اور مقام ابراہیمؑ ہے جو شخص اس میں داخل ہو گیا وہ امن میں آگیا‘‘ (ال عمران)
مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اس کے گھر میں اس کی واضح نشانیاں خصوصاً مقام ابراہیم موجود ہے۔
شیخ سائد بکداش یہاں لکھتے ہیں کہ مقام ابراہیم خود اپنی جگہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی کئی ایک نشانیوں کو لیے ہوئے ہے ایک بے جان پتھر میں سیدنا ابراہیمؑ کے قدموں کے نشان ایک نشانی ہے اس کے ایک حصہ کا نرم پڑ جانا اور دوسرے حصہ کا اپنی سختی کو قائم رکھنا ایک نشانی ہے تعمیر کعبہ کے وقت اس کا اونچا ہو جانا ایک نشانی ہے۔ مرور ایام کے باوجود اس کا محفوظ رہنا ایک نشانی ہے اس کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ دن اور رات کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گذرتا کہ جس کے پیچھے کوئی سجدہ ریز یا حالت رکوع میں نہ کھڑا ہو۔
اس کا محفوظ رہنا بجائے خود ایک نشانی ہے خصوصاً ھ قرامطہ کے دور میں جبکہ انہوں نے حرم میں فساد اور انتشار پھیلا دیا تھا ابوطاہر القرمطی کے اس فساد میں حجر اسود بھی محفوظ نہ رہ سکا۔ وہ اس کو اپنے ساتھ لے گیا یہی شخص مقام ابراہیم کے اس پتھر کو بھی اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کر رہا تھا مگر کعبۃ اللہ کے دربانوں نے اس کو مکہ کی وادیوں میں محفوظ مقام پر چھپا دیا تھا۔
شیخ کردی اپنی کتاب مقام ابراہیمؑ میں لکھتے ہیں کہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دور جاہلیت میں کفار قریش نے کعبۃ اللہ کے پتھر کو خدا بنا لیا تھا مگر حجر اسود اور یہ پتھر ان کی زیادتی سے محفوظ رہے جبکہ ان کے نزدیک مقدس ترین پتھروں میں سے یہ دو پتھر تھے اس میں گہرائی سے غور کرنے والا اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت تھی کہ ان دونوں پتھروں کو اس نے پوجے جانے سے محفوظ رکھا۔
اگر دور جاہلیت میں ان پتھروں کو پوجا جاتا پھر اسلام ان کے تقدس کو بحال رکھتا تو کفار اور منافقین مسلمانوں کو اس بات کا طعنہ دینے سے نہیں چوکتے کہ توحید کے علمبردار یہ مسلمان آج انہی پتھروں کو چوم رہے ہیں اور قابل تعظیم قرار دے رہے ہیں جو ہمارے نزدیک خدا سمجھے جاتے ہیں۔
دور نبوت کے بعد تمام مسلمان خلفاء اور امراء نے مقام ابراہیم کی تعظیم اور اس کے احترام میں کوئی کسر نہیں چھوڑی چنانچہ بعض خلفاء نے رخام کا چبوترہ بنوا کی اس پر اس پتھر کو نصب کیا خلیفہ منتصر باللہ نے اس چبوترے پر چاندی کی زمین بچھائی۔ مقام ابراہیم پر ایک چھوٹا سا گنبد تعمیر کروا دیا جو مختلف حکومتوں کے دور میں اونچا ہوتا گیا یہاں تک کہ اس کی شکل ایک مربع کمرے کی ہو گئی۔ جس کی چھت پر ایک منقش گنبد نصب تھا جس کو باب شیبہ کا نام دیا جانے لگا یہ کمرہ جو کعبۃ اللہ سے متصل تھا طواف کرنے والوں اور نمازیوں کی تعداد میں اضافے کے بعد اچھی بھلی رکاوٹ ثابت ہونے لگا۔ چنانچہ رابطہ العالم الاسلامی نے اس موضوع پر بحث وتحقیق کے بعد شاہ فیصل شہیدؒ کی خدمت میں یہ تجویز رکھی کہ اس کمرے کو ختم کر کے مقام ابراہیمؑ پر اس کے سائز میں شیشے کا ایک مخروطی بکس نصب کر دیا جائے جس سے مطاف کی جگہ بھی کھلی ہو جائے گی۔ نیز بعض کمزور ایمان مسلمانوں کا اس کمرے سے متعلق یہ اعتقاد بھی ختم ہو جائے گا کہ اس میں سیدنا ابراہیمؑ کی قبر ہے۔ رابطہ کی اس سفارش کو شاہ فیصل نے قبول کر لیا چنانچہ مقام ابراہیم کے اوپر انتہائی قیمتی کرسٹل کا مخروطی بکس نصب کر دیا گیا مزید مضبوطی کے لیے اس کے اطراف سونا پلائی ہوئی جالیاں بھی نصب کر دی گئیں اور اس کی اونچائی تقریبا 2میٹر ہے۔

مزید :

ایڈیشن 1 -