بڑے شہر۔۔۔ بدنظمی کرپشن۔۔۔ اور حکومتی غفلت
بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو فرمایا وہ ہمارے لئے ایک متعین کردہ راہ ہے، جس پر عمل کرکے ہم اپنے معاملات زندگی بہتر انداز میں چلا سکتے ہیں، لیکن اگر ہم اس کے مطابق نہ چلیں تو پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں اور وہ مسائل جب بڑے ہوتے جاتے ہیں، بڑھتے جاتے ہیں تو پھر ان پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے۔ آنحضورؐنے فرمایا تھا کہ اپنے شہر ایک خاص حد سے بڑے مت ہونے دینا اور جب شہر بڑا ہونے لگے تو نئے شہر آباد کرنا، یعنی مناسب فاصلے پر نئے شہر بنانا۔ لیکن بدقسمتی سے ہم نے پاکستان کی 77سالہ تاریخ میں ایسا نہ سوچا نہ کیا۔ ہم نے آنحضورؐ کے کہے پر عمل نہیں کیا۔ مجھے اتفاق سے دنیا کے 60سے زائد ممالک دیکھنے کا موقع ملا۔ 19سال کی عمر میں دنیا دیکھنے کے شوق میں پاکستان سے نکلے اور یونان کے بحری جہاز کے ذریعے دنیا دیکھنے کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ مختلف بحری جہازوں میں افریقہ، امریکہ، شمالی امریکہ، سینٹرل امریکہ، ویسٹ انڈیز، یورپ جہاں جہاں گئے بہت کچھ دیکھا۔ اٹلی میں 6ماہ قیام بھی رہا اور بعد میں مختلف بندرگاہوں پر جانے کا اتفاق بھی ہوا۔ اٹلی میں جو چیز اچھی لگی۔ وہ اٹلی کا شہر بسانے کا طریقہ تھا۔ انہوں نے سمندر کنارے چھوٹے شہر آباد کئے، جہاں شہر بنایا وہاں ایک چھوٹی بندرگاہ بنائی وہاں بڑی بندرگاہیں بھی ہیں، لیکن سمندر کے کنارے ایک چھوٹا شہر جس میں یونیورسٹی، کالج ، سکول، ہسپتال سمیت تمام سہولیات اور چند فیکٹریاں بنائیں۔ پانچ سے سات لاکھ کا شہر آباد کیا۔ اس سے کچھ فاصلے پر پھر ایک اِسی طرح نیا شہر بنایا اور وہ شہر بہت کامیاب ہیں۔وہاں زندگی رواں دواں ہے اور مسائل کم ہیں۔ان کے پاس ”روم اور میلان“جیسے بڑے بڑے شہر ہیں تو باقی چھوٹے شہر بھی ہیں۔ یورپ میں بھی دوسری جنگ عظیم کے بعد جب بحالی کا عمل شروع ہوا تو اسی فارمولے پہ عمل کیا گیا اور بڑے شہروں کے قریب، ارد گرد چھوٹے شہر آباد کئے گئے، لیکن ہمیں جنہیں پیارے نبیؐ نے 1400سال پہلے یہ بتا دیا تھا کہ اپنے شہر چھوٹے رکھو بڑے مت کرو ہم اِس پہ عمل پیرا نہیں ہوئے۔آج ہم اگر دیکھیں تو سب سے زیادہ مسائل کراچی شہر میں ہیں جہاں قتل و غارت، خون ریزی، ڈکیتی حادثے روزانہ کا معمول ہیں۔ لوٹ مار کا بازار گرم ہے ۔ بے ہنگم تعمیرات جاری ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، نہ کوئی نقشہ ہے نہ اجازت ہے۔جیب گرم کریں کام جاری رکھیں۔ یہی معاملہ پنجاب میں لاہور کے ساتھ ہوا اور جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج سارے پنجاب کی آبادی لاہور میں رہنا چاہتی ہے۔ دیہات، چھوٹے شہروں کا ہر شخص لاہور میں رہنے، کام کرنے، گھر بنانے کا متمنی ہے۔ میری 65سالہ عمر اِسی شہر میں گزری اِس دوران اس شہر کو ایک خوبصورت صاف ستھرے، باغوں، یونیورسٹیوں کالجو ں، سکولوں والے شہر سے تبدیل ہو کر اینٹ لوہے سیمنٹ کا جنگل بنتے دیکھا۔ سبزہ کٹتے دیکھا اور آج ہر طرف صرف پتھر، سیمنٹ لوہے کی بنی عمارتیں ہیں اور پختہ سڑکیں ہیں۔
سبزہ کہیں کنکریٹ کے نیچے دفن ہو چکا ہے، لیکن اس سب سے بھی بڑی خرابی یہ ہوئی کہ یہ سب کچھ ایک پلاننگ کے تحت نہیں بنا۔ نہ کوئی پارک بنا۔ نہ سیوریج سسٹم صحیح ہوا، نہ کوڑے کا نظام بنایا گیا۔ شہر بھر کے کوڑے سے محمود بوٹی بند کے ساتھ کوڑے کی پہاڑیاں بن چکی ہیں۔ کوڑا آج بھی جلایا جاتا ہے۔ سیوریج کو بغیر ٹریٹمنٹ دریا میں پھینکا جاتا ہے اور ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق لاہور شہر کا 1800کیوسک گندا پانی روزانہ دریائے راوی میں پھینکا جاتا ہے۔1800کیوسک سے مراد ایک ”نہر“ ہوتی ہے۔ ایک چھوٹی نہیں،بلکہ بڑی نہر۔ اب دریائے راوی میں یہ 1800کیوسک گندا پانی بہتا ہے باقی صاف پانی تو بھارت روک چکا ہے، لیکن اس سے بھی بڑی خرابی یہ ہوئی کہ اس شہر کی تعمیر و ترقی کے ذمہ دار اداروں نے اسے تباہ کیا۔ ایل ڈی اے اور میٹروپولیٹن کارپوریشن لاہور یہ دونوں ادارے اس شہر کی تباہی کے زمہ دار ہیں۔ان اداروں میں جو افسر تعینات ہوئے انہوں نے ”اپنے کام“ کی بجائے ”پیسہ کمانے“ پر زور دیا اور اتنا زور دیا ”کہ وہ کروڑ پتی، ارب پتی“ہو گئے، لیکن شہر برباد ہو گیا۔ آج یہ کالم لکھنے کا خیال اس لئے آیا کہ ایل ڈی اے کی طرف سے روزانہ یہ خبر جاری ہوتی ہے کہ آج ڈی جی ایل ڈی اے کے حکم پر فلاں جگہ غیر قانونی تجاوزات، غیر قانونی کمرشل استعمال کے خلاف کاروائی کی گئی۔ ایک خبر گلبرگ میں سر سید روڈ، بلاک سی ون، ڈی ون، ایل بلاک میں دو درجن شوروم دفتر، کافی شاپ کی غیر قانونی تعمیر گرا دی گئی۔ اگلے دن خبر آتی ہے ایل ڈی ایونیو ون، جوبلی ٹاؤن، کینال روڈ، رائیونڈ روڈ پر ایک درجن غیر قانونی تعمیرات اور دکانیں مسمار کردی گئیں۔ گھیری گئی اضافی جگہ واگزار کرا لی گئی۔ پھر اگلے دن ایک خبر ”فراہم“کی جاتی ہے کہ نیو گارڈن ٹاؤن میں کمرشل فیس ادا کیے بغیر اپنے گھروں کو کمرشل ایکٹیوٹی کے لئے استعمال ہونے والی14پراپرٹیاں سر بمہر کر دی گئیں، جن میں بینک، سکول، فوڈ شاپس، دفتر ، کورئیر آفس شامل ہیں۔ پھر اگلے دن خبر آتی ہے کہ نظریہ پاکستان روڈ پر آرکیٹیکٹ سوسائٹی میں غیر قانونی تعمیر مسمار اور کمرشل استعمال والی والی املاک سر مہر کر دی گئیں۔ ایک خبر اور سنائی جاتی ہے کہ مصطفی ٹاؤن، علامہ اقبال ٹاؤن میں 22 نجی سکول، شادی ہال، دفاتر، فارمیسی، اکیڈمی وغیرہ سیل کر دی گئیں۔ ایک اور خبر ملی کہ جوہر ٹاؤن جی۔ ون مارکیٹ میں تجاوزات کے خلاف آپریشن ہوا اور 50غیر قانونی تجاوزات ختم کرکے پارکنگ بحال کر دی گئی۔ یہ سب اچھا ہو رہا ہے، لیکن مجھے ایک چیز کا انتظار ہے کہ ڈی جی ایل ڈی اہے جو یہ کاروائی کروا رہے ہیں کیا انہوں نے یہ پوچھنا پسند کیا کہ یہ تمام تعمیرات کن افسروں کی ملی بھگت سے کی گئیں اورکن کی ملی بھگت سے جاری تھی،”کون“وہاں سے پیسے وصول کرتا تھا۔ کیا ڈی جی ایل ڈی اے نے کبھی جلو پارک سے مغلپورہ بلکہ ٹھوکر تک نہر کے دونوں اطراف یہ دیکھنا پسند کیا کہ سروس روڈ کے اوپر جو کمرشل تعمیرات ہیں کیا انہوں نے ”اجازت“لی ہے۔ یہ تعمیرات مکمل طور پر ”زیرو لائن“پہ بنائی گئی ہیں۔ کسی کے پاس پارکنگ کی جگہ نہیں ہے۔ ان کمرشل تعمیرات میں سکول، شادی ہال، شاپنگ پلازے شامل ہیں۔ غرض جس کا جو دِل چاہے کرے بس پہلے ”جیب گرم“کر دے۔ نہر کنارے مکمل کمرشل ایکٹیوٹی ہو رہی ہے لیکن پارکنگ ان دکانوں کے سامنے گرین بیلٹ میں کی جاتی ہے، یعنی شہریوں سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اور آکسیجن بھی چھینی جا رہی ہے اور تو اور اب اس گرین بیلٹ پر بھی قبضہ شروع ہو گیا ہے وہاں عارضی دکانیں بنائی جا رہی ہیں۔ لہٰذا صرف یہی عرض ہے کہ ”اپنے چوروں اور ڈاکو ؤ ں“کے خلاف ایکشن بھی لیں۔