حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے خطوط کی اہمیت

حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے خطوط کی اہمیت
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے خطوط کی اہمیت
کیپشن: mian mu

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا دورِ خلافت632ءسے 634ءتک رہا۔ مردوں میں سب سے پہلے نبی پاکﷺ پر ایمان لائے تھے۔ نبی پاکﷺ کا جسد مبارک ابھی تجہیز و تکفین کے مرحلے میں ہی تھا کہ جانشینی کا بڑا خطرناک جھگڑا اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔ بالآخر کافی بحث کے بعد اتفاق رائے سے آپ ؓ کو خلیفتہ الرسول منتخب کر لیا گیا، لہٰذا بیعت ِ عام کے بعد آپ ؓ نے پہلے خطاب میں فرمایا: ”لوگو! مَیں تم پر حاکم بنایا گیا ہوں۔ حالانکہ مَیں تمہاری جماعت میں سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر مَیں اچھے کام کروں تو میری اطاعت کرو اور اگر کج روی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دو۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت، تمہارا ضعیف فرد بھی میرے نزدیک قوی ہے، یہاں تک کہ مَیں دوسروں سے اس کا حق اس کو نہ دلا دوں اور تمہارا قوی شخص بھی میرے نزدیک ضعیف ہے، یہاں تک کہ مَیں اس سے دوسروں کا حق حاصل نہ کر لوں۔ یاد رکھو، جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دیتی ہے، اللہ اس کو ذلیل وخوار کر دیتا ہے اور جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے، اللہ اس کو عام مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اگر مَیں اللہ اور اس کے رسول نبی پاکﷺ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو اور اگر اس کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں“۔
آغازِ خلافت میں آپ ؓ کو کئی ایک مشکلات اور حوادث کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک طرف جھوٹے مدعیان نبوت تھے، دوسری طرف مرتدین اسلام اور منکرین زکوٰة نے شورش برپا کر رکھی تھی۔ اندریں حالات آپ ؓ نے مرتدین کے سربراہوں کے نام ایک نہایت جامع، مدلل اور نصیحت آموز خط لکھا، جس کی عبارت اس طرح سے تھی:
مرتدین کے نام
”بسم اللہ الرحمان الرحیم۔ یہ خط ابوبکرصدیق ؓ خلیفہ ¿ رسول اللہ کی جانب سے ان تمام عام اور خاص لوگوں کے نام ہے، جن کو یہ موصول ہو، چاہے وہ اسلام پر قائم ہوں یا اس سے مرتد ہو گئے ہیں، سلامتی ہو ان پر جنہوں نے راہ راست کی اتباع کی، ہدایت کے بعد ضلالت اور گمراہی اختیار نہیں کی، مَیں تمہارے سامنے اس معبود حقیقی کی، جس کے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں ہے، تعریف کرتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ اللہ واحدہ لاشریک ہے اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ کا جو پیغام وہ ہمارے لئے لائے ہم اس کا اقرار کرتے ہیں اور جو اس سے انکار کرے ہم اسے کافر سمجھتے ہیں، اس سے جہاد کریں گے، اللہ تعالیٰ نے محمد کو واقعی اپنی جانب سے اپنی مخلوق کے لئے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا اور اللہ تعالیٰ کی جانب اس کے حکم سے دعوت دینے والا اور ایک روشن شمع بنا کر مبعوث فرمایا تاکہ وہ جو زندہ ہوں، ان کو اللہ کا خوف دلائیں اور اس طرح منکرین کے برخلاف بات پکی ہو جائے، جس نے ان کی بات مانی اللہ نے اسے راہ راست بتا دی اور جس نے ان سے انکار کیا، رسول اللہ نے اللہ کے حکم سے اسے اچھی طرح سزا دی۔ یہاں تک کہ وہ خوشی سے یا بادل نخواستہ اسلام لے آیا، پھر اللہ نے اپنے رسول کو اپنے پاس بلا لیا، مگر وہ اللہ کے حکم کو پوری طرح نافذ کر چکے تھے اور اس کی امت کے ساتھ مخلصانہ خیر خواہی کر چکے تھے۔ اللہ نے ان کی موت کی صاف اطلاع خود رسول اللہ کو اور تمام مسلمانوں کو اپنی کتاب میں، جسے اس نے نازل فرمایا ہے، پہلے سے دے دی تھی۔
مَیں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ سے ڈرتے رہو اور اس طرح اپنا حصہ اور نصیبہ اس سے حاصل کر سکو اور تمہارے نبی جو اللہ کا پیام تمہارے پاس لائے ہیں، اس سے بہرہ ور ہو سکو اور اللہ کی ہدایت پرگامزن رہو۔ اللہ کے دین پر مضبوطی سے قائم رہو، جسے اللہ ہدایت نہ دے، وہ گمراہ ہے اور جسے اللہ معاف نہ کرے، وہ سخت مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے، جس کی اعانت اللہ نہ کرے، وہ ذلیل اور ناکام رہ جاتا ہے، جس کی ہدایت اللہ نے کی، وہ واقعی راہ راست پر گامزن ہوا اور جسے اللہ نے گمراہ کر دیا وہ بالکل گمراہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ (جسے اللہ نے ہدایت دی وہ واقعی کامیاب ہوا اور جسے اللہ نے گمراہ کر دیا تو اس کے بعد پھر ہر گز اسے کوئی صحیح اور خیر خواہ رہبر نہیں مل سکتا) اور جب تک کوئی اس دین الٰہی کا اقرار نہ کرے، نہ دنیا میں اس کا کوئی عمل مقبول ہو گا اور نہ آخرت میں کوئی بدلہ یا معاوضہ قبول کیا جائے گا۔
مجھے معلوم ہوا ہے کہ بہت سے لوگ اسلام لانے اور اس پر عمل پیرا ہونے کے بعد اس سے مرتد ہو گئے ہیں، ان کو یہ جسارت اس لئے ہوئی کہ انہوں نے اللہ کے متعلق غلط اندازہ قائم کیا ہے اور اس کے طریقہ ¿ کار سے وہ واقف نہیں اور انہوں نے شیطان کے اغوا کو قبول کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ (اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو، انہوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، جو جن تھا، اس لئے اُس نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی، تو اب کیا تم اُسے اور اس کی جماعت کو میرے سوا اپنا مالک بناتے ہو، حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں، راہ راست سے ہٹنے والوں کو یہ بہت بُرا معاوضہ ملا) اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے تم بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھو۔ اس کی جماعت تم کو اس لئے اغوا کرتی ہے کہ تم دوزخ میں جاﺅ)۔
مَیں نے فلاں شخص کو مہاجرین، انصار اور پہلے تابعین کی جمعیت کے ساتھ تمہارے پاس بھیجا ہے اور ان کو حکم دیا ہے کہ تاوقتیکہ وہ اللہ کا پیام تم تک نہ پہنچا دیں، نہ کسی سے جنگ کریں اور کسی کوقتل کریں، لہٰذا جو اس دعوت کو قبول کر کے، اس کا اقرار کرے، اپنے موجودہ طرز عمل سے باز آ جائے اور عمل صالح کرنے لگے، اس کے اقرار اور عمل کو قبول کر کے اس پر بقاءاور قیام کے لئے اس شخص کی اعانت کی جائے اور جو اس پیام کو رد کر دے، اس کے متعلق مَیں نے حکم دیا ہے کہ محض اس انکار کی وجہ سے اس سے جنگ کی جائے اور پھر جس پر قابو چلے، اس کے ساتھ ذرا بھی رحم نہ کیا جائے، ان کو جلا دیا جائے اور بُری طرح قتل کر دیا جائے، ان کے اہل و عیال کو لونڈی غلام بنا لیا جائے۔ اسلام کے سوا کسی بات کو ان سے قبول نہ کیا جائے، جو اسلام کی اتباع کرے، وہ اس کے لئے بہتر ہے، جو اس سے انکار کرے، تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اللہ سے بھاگ کر کہیں جا نہیں سکتا۔

مَیں نے اپنے پیامبر کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس خط کو ہر مجمع میں پڑھ کر سنا دیں اور ہمارا شعار اذان ہے، لہٰذا جب مسلمان اذان دیں، مرتدین بھی اذان دیں، تو خاموشی اختیار کی جائے اور اگر وہ اذان نہ دیں، فوراً ان کی خبر لی جائے اور اذان دینے کے بعد بھی ان سے دریافت کیا جائے کہ وہ کس مسلک پر ہیں۔ اگر وہ اسلام سے انکار کریں تو فوراً اُن سے جنگ شروع کر دی جائے اور اگر وہ اسلام کا اقرار کر لیں، اُن کے بیان کو قبول کر کے ان پر اسلام کی خدمت عائد کی جائے“۔
حضرت خالد ؓ کے نام خط

نافع سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ایک خط کے جواب میں حضرت خالد ؓ کو لکھا:” جو کچھ تم نے کیا اور جو کامیابی تم کو حاصل ہوئی، اللہ تم کو اس کی جزائے خیر دے۔ تم اپنے ہر کام میں اللہ سے ڈرتے رہو (اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو اس سے ڈرتے اور نیکی کرتے ہیں) تم اللہ کے اس کام میں پوری جدوجہد کرو تساہل نہ کرنا اور جس کسی ایسے شخص پر، جس نے مسلمانوں کو قتل کیا ہو، تمہارا قابو چل جائے، اسے بے دریغ قتل کر کے دوسروں کے لئے باعث عبرت بنانا اور جس شخص نے اللہ کی مخالفت کی ہو اور تم اس کو قتل کر دینے میں اسلام کی بھلائی سمجھتے ہو، بے دریغ اسے قتل کر دینا۔
 رسول اللہ کی شان میں گستاخی کی سزا
مہاجر ؓ کے سامنے دو گانے والی عورتوں کے مقدمات پیش ہوئے، ایک نے رسول اللہ کی شان میں گالیوں کے اشعار گائے تھے، مہاجر ؓ نے اس کی سزا میں اس کا ایک ہاتھ قطع کرا دیا اور سامنے کے دو دانت تڑوا دیئے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو اس کی اطلاع ملی، تو آپ ؓ نے مہاجر ؓ کو لکھا کہ ” رسول اللہ صلعم کی شان میں گالیوں کے اشعار گانے بجانے والی عورت کو جو سزا تم نے دی ہے، مجھے اس کا حال معلوم ہوا، اگر مجھے پہلے علم ہوتا تو مَیں تمہیں اس کو قتل کرنے کا حکم دیتا،کیونکہ حد انبیاءعلیہ السلام اور لوگوں کے حدود کے مثل نہیں ہے، پس اگر کسی مسلمان سے یہ گستاخی سرزد ہو تو وہ مرتد ہے اور ذمی اس کا ارتکاب کرے تو وہ باغی محارب ہے“۔ اور جس عورت نے مسلمانوں کی ہجو میں اشعار گائے تھے، اس کے متعلق امیر المومنین ؓ نے مہاجر ؓ کو لکھا کہ ”مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے اس کو ہاتھ کاٹنے اور دانٹ توڑنے کی سزا دی ہے، اگر وہ عورت مدعی ¿ اسلام تھی، اس کو تادیب اور تنبیہہ کرنا کافی تھا نہ کہ اس کے اعضاءکاٹنا۔ اور اگر ذمی تھی تو بخدا اس کے جس جرم سے تم نے اب تک درگزر کیا، وہ اس سے کہیں زیادہ بڑا تھا، اگر مَیں اس قسم کی باتوں پر تمہاری گرفت کروں تو ممکن ہے کوئی ناگوار صورت پیش آ جائے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ ایسا طرز عمل اختیار کرو، جس میں امن رہے، کبھی کسی کو قطع اعضاءکی سزا نہ دو، کیونکہ یہ گناہ ہے اور اس سے لوگوں کے دِلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے، البتہ قصاص کی صورت میں اور بات ہے“۔
 حضرت خالد ؓ کو شام کی مہم پر جانے کا حکم
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے خط میں خالد ؓ کو حکم دیا تھا کہ تم یہاں سے روانہ ہو کر یرموک میں مسلمانوں کی جماعت سے مل جاﺅ، کیونکہ وہاں وہ دشمن کے نرغے میں گھر گئے ہیں اور یہ حرکت جوتم نے اب کی ہے، آئندہ کبھی تم سے سرزد نہ ہو۔ یہ خدا کا فضل ہے کہ تمہارے سامنے دشمن کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں اور تم مسلمانوں کو دشمن کے نرغے سے صاف بچا لاتے ہو، اے ابو سلیمان میں تم کو تمہارے خلوص اور خوش قسمتی پر مبارک باد دیتا ہوں، اس مہم کو پایہ¿ تکمیل تک پہنچاﺅ، اللہ تمہاری مدد فرمائے گا، تمہارے دل میں فخر نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ فخر کا انجام خسارہ اور رسوائی ہے اور نہ اپنے کسی فعل پر نازاں ہونا، کیونکہ فضل و کرم کرنے والا صرف خدا اور وہی اعمال کا صلہ دیتا ہے“۔
مرتدین و منکرین نے جب آپ کے خط کی تعمیل نہ کی اور بغاوت سے باز نہ آئے تو آپ نے بلا تاخیر ان کے خلاف انضباطی کارروائی فرما کر ہر طرح کی شورش اور بغاوت کا سر کچل دیا۔ و ہ کون سے اقدامات تھے، جن کے ذریعے ہر طرح کی بغاوت کا خاتمہ کیا گیا۔  (جاری ہے) ٭

مزید :

کالم -