ظفرمرزا کا  بیٹا یا وزیر اعظم کا بھانجا  ہوتا، تو کیا ہوتا؟

 ظفرمرزا کا  بیٹا یا وزیر اعظم کا بھانجا  ہوتا، تو کیا ہوتا؟
 ظفرمرزا کا  بیٹا یا وزیر اعظم کا بھانجا  ہوتا، تو کیا ہوتا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

فرض کیجئے آج چین میں چھائی کرونا کی قیامت خیزی  کے دوران وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ظفر مرزا کا لخت جگر، بھائی، بھتیجا، کسی دوست ،عزیز کا  خونی رشتہ    بیجنگ، شنگھائی، سینکیانگ،ارمچی، شیانزن، تیانجن  گینگزو یا ہینگزو میں  پھنسا  ہوتا تو کیا ہوتا ؟ کیا موصوف  پھر بھی وہ وسیع تر قومی مفاد اور خطے کی  بھلائی کیلئے انہیں چین سے واپس نہ لانے کا موقف اختیار کرتے؟ چلئے چھوڑیئے ، اگر یہ صورتحال  وزیر اعظم کے کسی بھانجے، جہانگیر ترین کے کسی دورکے رشتہ دار، شاہ محمود   قریشی پر جاں نچھاور کرنے والےان کے کسی ہردلعزیز مرید پیروکار، شہزاد مرزا کےصاحبزادے، فواد چودھری کے عزیز، مراد سعید کے حلقہ کے   سرگرم کارکن  کے ساتھ  پیش آتی تو کیا وہ  اپنے  بیانیہ پر قائم او رموجود رہ پاتے؟

یقین جانئے صورتحال بدلی ہوتی تو ظفز مرزا  کو   وسیع تر مفاد یاد ہوتا نہ خطے کی  بھلائی، ایسی صورتحال میں   وہ  کبھی نہ کہہ پاتے کہ ملک اور خطے کے مفاد میں چین میں پھنسے پاکستانیوں کو  وطن نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے،اگر ایسا ہوتا تو پھر وقت کے جغادری کو نیوزی لینڈ ، امریکہ، برطانیہ کی مثالیں یاد آجاتیں کہ جنھوں نے  فوری طور پر اپنے شہریوں کو چین کے قیامت خیز  حالات سے نکالنے کا فیصلہ کیا،اگر ایسا ہوتا تو عام پاکستانیوں کے لئے سوئی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی بھی جاگ اٹھتی، ملک میں ایمرجنسی نافذ ہو جاتی، دورکسی صحرا میں یا پہاڑوں پر آئی سولیشن سینٹر ڈکلیئر کیا جاتا اور چین میں پھنسے بے چارے پاکستانیوں کوانسانی ہمدردری اور قومی فریضہ کی ادائیگی کے تحت وہاں منتقل کردیا جاتا، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔۔۔
کرونا کے عذاب میں  گرفتار چین میں پھنسے پاکستانیوں میں سے کوئی ایک بھی ظفر مرزا کا   قریبی  ہے  ناوزیر اعظم کا بھانجا، نا جہانگیر ترین کا رشتہ دار اورنا  ہی شاہ محمود قریشی کا مرید ہے ۔ پھنسے ہوئے پاکستانیوں میں کوئی  فواد چودھری کا عزیز یا مراد سعید کے حلقے کا سرگرم کارکن بھی  نہیں،یہ وہ  عام پاکستانی ہیں جو اپنی آنکھوں میں چھبتے بہتر زندگی کے خوابوں کی تعبیر کیلئے سستی مگر معیاری اعلیٰ تعلیم کی بھٹی میں خود کو جھونکنے کیلئے چین میں  عرصے سے مقیم ہیں،ان میں وہ بھی شامل ہیں جو  ملک کے بازاروں کو سستی چینی ٹیکنالوجی سے سجانے اور بال بچوں کیلئے روٹی روزی کا بندوبست کرنےسرحد پار گئے ہیں۔ معاون خصوصی کو شاید بہت کم لوگ ہی جانتے ہوں مگرقوم فی الحال  ان کی پہچان  نہیں بھولی جنھوں نے اقتدارسے پہلے تبدیلی کے نام پر لمبے لمبے بھاشن دیئے، سہانے خواب دکھا ئے اورایک نئے پاکستان کا مژدہ جانفزا سنایا، یہی  بازی گر آج کل اسلام آباد کے ایوانوں سے قوم کو  ریاست مدینہ کی گونج سنا رہے ہیں ،قوم کے ان کرم فرماؤں سے یہ پوچھنا تو بنتا ہے کہ بدترین حالات میں پھنسے پاکستانی کیا خود ساختہ  ریاست مدینہ  کی ذمہ داری نہیں؟
 اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود اور حکومت کے اس اقدام کو اقدام قتل کے برابر قرار دینے پر بھی   وزیر اعظم کے معاون خصوصی  ظفر مرزا   اپنے موقف پر ڈٹے  نظر آئے ،گزشتہ روز  انہوں نے  سینٹ کمیٹی کے روبرو   کہا عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ چین میں موجود پاکستانی شہریوں کو وطن واپس لائے تو کورونا وائرس کےپھیلاؤ پر قابو پانا ممکن نہیں رہے گا۔وسیع تر قومی مفاد میں قوم کے بچوں کو موت کے جنگل  میں بے آسرا چھوڑنے  والے ان بھاشن بازوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ ڈبلیوایچ اونےسنگین وائرس کےباوجود چین سےسرحدوں کی بندش کوغیرضروری قراردیاہے۔عالمی ادارہ صحت کاموقف ہےکہ اگرچین کے ساتھ سرکاری سرحدیں بند کردی گئیں تو وائرس سےمتاثرہ افراد کی ٹریکنگ  مشکل ہو جائیگی۔دوسری جانب  امریکہ،برطانیہ اوردیگر یورپی ممالک اپنےشہریوں کوتمام خطرات کے باوجود باہر نکال رہے ہیں۔اپنےشہریوں کو سنگین صورتحال سےباہر نکالنےوالوں میں نیوزی لینڈ،انڈونیشیا،فلپائن،جاپان،آسٹریلیابھی شامل ہیں۔عرب ٹی وی  الجزیرہ نےاپنی ایک رپورٹ میں نشاندہی کی ہےکہ پاکستان کی حکومت نے تعلیم اورکاروبارکیلئےچین میں پھنسے30ہزارپاکستانیوں  کو مہلک وائرس سے بچانے کیلئے  تاحال فیصلہ نہیں کیا۔
عالمی  سیاست کے خدوخال میں دوسرے ملکوں کی پالیسیوں کے جائزے  کے بعد ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ اگر  حکومت نے چین میں پھنسے پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کا فیصلہ نہ  کیا اور انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تویقین جانئے  دنیا انسانی حقوق اور فلاحی ریاست   کے معاملے  میں ہم پر کبھی بھی اعتبار نہیں کریگی۔کرونا کا خطرہ  بڑا ہو یا چھوٹا فی الوقت اقوام عالم کا چلن  انخلا ہے۔اس لئے  ہمالیہ سے بلند پاک چین دوستی اوراعتبار کے مضبوط رشتے کے باوجود ہمیں پھنسے پاکستانیوں کوواپس لانا ہے،حکمران یاد رکھیں یہ اقدام جہاں دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے برابر ہوگا ،وہیں اپنے پیاروں کی آس میں نم دیدہ مائیں ، بہنیں   اور بیٹیوں کے چہروں پر مسکان لانے کا انتظام بھی ۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

بلاگ -