ماں باپ کا دین اولاد ساری عمر نہیں اتار سکتی،نانا نے افطاری کی دعوت دی کہ میری بیٹی نے پہلا روزہ رکھا ہے،شام کو سارا گاؤں حویلی میں جمع تھا

ماں باپ کا دین اولاد ساری عمر نہیں اتار سکتی،نانا نے افطاری کی دعوت دی کہ ...
ماں باپ کا دین اولاد ساری عمر نہیں اتار سکتی،نانا نے افطاری کی دعوت دی کہ میری بیٹی نے پہلا روزہ رکھا ہے،شام کو سارا گاؤں حویلی میں جمع تھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط38:
 تنویر جہاں کا جہاں؛ 
 مجھے یاد ہے امی جی گرمیوں کے موسم میں ہم سب بہن بھائیوں اور والد کے لئے ”بی پی“ یا ”اے بی سی“کی اون سے سوئیٹر بنا کرتی تھیں۔ اس کام میں ان کی مہارت مسلمہ تھی۔ وہ نت نئے ڈیزائین بناتی تھیں۔ مختلف نمبر کی سلائیاں استعمال کرتی تھیں اور محلے کی بہت سی جوان لڑکیاں ان سے سلائی سیکھنے یا ڈیزائین سمجھنے آتی تھیں۔میری والدہ کھانا بنانا اتنا اچھا نہ جانتی تھیں بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ انہیں کھانا بنا نا ہی نہ آتا تھا۔ یہ کام کیجو کیا کرتی تھی۔ وجہ شاید یہ تھی کہ رئیس اعظم جالند ھرکی اکلو تی لاڈلی بیٹی ہونے کے ناطے انہیں گھریلو کام کم ہی آتے تھے۔  بتایا کرتی تھیں؛”میرے آگے پیچھے نوکروں کی لائن ہوتی، کوئی بالوں میں کنگھی کرتا تو، کوئی کپڑے پہناتا، کوئی کھانا پکاتا تو کوئی ٹانگہ چلاتا تھا۔ والدہ تانگے میں سکول جاتی تھیں۔ کوچوان کے علاوہ ایک ملازم بھی ساتھ ہوتا تھا۔ چھٹی تک تانگہ سکول میں ہی کھڑا رہتا تھا۔ چوتھی جماعت میں پڑھتی تھیں تو پہلا روزہ رکھا۔ نانا نے سارے گاؤں کو افطاری کی دعوت دی کہ میری بیٹی نے پہلا روزہ رکھا ہے۔ ادھر افطاری کی تیاری ہو رہی تھی ادھر والدہ نے سکول سے آتے ہوئے پیاس کی شدت سے روزہ توڑ دیا اور کوچوان بشیر سے کہا؛”خبردار جو”ابے“ کو بتایا۔“(میرے نانا کو سبھی ابے کہہ کر پکارتے تھے۔)شام کو سارا گاؤں حویلی میں جمع تھا اور میرے نانا کو مبارک دے رہے تھے۔ میری والدہ مجھے بتانے لگی؛”سارے گاؤں کو حویلی میں اکٹھا دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا کہ میرے باپ نے میری خوشی کے لئے کتنا شاندار اہتمام کیا اور میں نے روزہ توڑ دیا۔ میں نے افطاری کے بعدابے کو سب کچھ بتا دیا اور وعدہ کیا آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔“ کہنے لگیں یہ سن کر تیرے نانا مسکرئے اور بولے”پتر! بشیرے نے مجھے پہلے ہی سب کچھ بتا دیا تھا۔ پر میں تجھ سے پیار ہی اتنا کرتا ہوں کہ اپنی لاڈلی کو کچھ بھی نہ کہہ سکا۔“ یہ سن کر میں اپنے باپ سے لپٹ گئی اور رو پڑی۔ ماں باپ کا دین اولاد ساری عمر نہیں اتار سکتی۔ میں نے پوچھا؛”امی جی! کو ئی کلاس فیلو آ پ کو یاد ہے۔“ کہنے لگی؛کامنی کوشل تھی، بلونت کور تھی، اوشا تھی، خدیجہ تھی۔ ایک روز کامنی کوشل نے مجھے پشمینہ کی شال دکھائی جو سری نگر سے منگوائی گئی تھی۔میں گھر آ کر روٹھ کر بیٹھ گئی اور کھانا بھی نہ کھایا۔ میری والدہ محمد بی بی(میری نانی اماں۔ ہم سب پیار سے انہیں آپاں“ کہتے تھے۔ وہ بہت پیار کرنے والی اور اعلیٰ پائے کی کک بھی تھیں۔ مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں۔ اپنی واحد اولاد یعنی میری ماں میں تو ان کی جان تھی۔)نے نانا کو بلا بھیجا کہ افضال کھانا نہیں کھا رہی ہے۔“ وہ آئے اور پوچھا بیٹی کیا بات ہے۔ کہنے لگیں میں نے بتایا؛”کامنی کے والد نے اسے پشمینہ کی شال دلائی ہے۔ مجھے بھی دلائیں تب کھانا کھاؤں گی۔“ نانا نے وعدہ کر لیا۔ کہنے لگیں چند دن گزرے تو شام کے وقت مجھے بلایا اور 3 عدد پشمینہ کی شالیں (سفید، کالی اور براؤن) مجھے دیں اور کہنے لگے؛”پتر! کامنی کے پاس ایک ہی ہو گی۔ میں نے خاص بندہ سری نگر بھیج کر یہ منگوائیں ہیں۔ اس میں 3 رنگ ہی بنتے ہیں۔اگر زیادہ بنتے تو سبھی منگوا دیتا اپنی رانی بیٹی کو۔“اگر میں یہ کہوں کہ وہ سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئیں تھیں تو غلط نہ ہو گا۔ پھر زندگی نے کروٹ کی اور انہیں بہت مشکل حالات دیکھنے پڑے۔ میرے والد سے انہوں نے دوسری شادی کی۔ پہلے خاوند کے ساتھ بھی کوئی خوش نہ تھیں۔ کبھی یہاں کبھی وہاں کرائے کے مکانوں میں ہی زیادہ وقت گزرا۔ مجھے یاد ہے شورکوٹ میں وہ کئی بار میرے والد کی قمیض پہن لیتی تھیں۔ سرد موسم میں دیہات کی عورتوں کی طرح سردی سے بچنے کے لئے دددو قمضیں بھی پہنیں۔ مشکل میں بھی وہ ابا جی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑی رہیں۔ ابا جی بھی ان کا بہت خیال کرتے تھے۔ میں نے ہمیشہ ان دونوں کو ایک ہی پلیٹ میں کھانا کھاتے دیکھا۔ اچھے برے وقت دونوں میں ہی وہ گھر کی مالکن اور والد کے دل کی ملکہ تھیں۔ ان کی آپس میں ہونے والی نوک جھوک بھی کمال ہوتی تھی۔  (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -