سیاست چھوڑ دی مَیں نے……

سیاست چھوڑ دی مَیں نے……
سیاست چھوڑ دی مَیں نے……

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


خواتین و حضرات پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ نے ایک ویڈیو کانفرنس کے ذریعے سیاست چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں سب کچھ ہوتا ہے، لیکن عوامی فلاح کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہماری سیاست میں غریب طبقے کی گنجائش نہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا یہ بھی ہے کہ وہ بے پناہ کام اور صحت کے مسائل کی وجہ سے سیاست سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اب وہ تحریر و تصنیف پر بھرپور توجہ دیں گے۔ اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے سیاست میں صرف ایک سیٹ کے ساتھ بھرپور حصہ لیا۔ چونکہ ان کی شخصیت سیاست میں آنے سے قبل بھی معروف تھی، لہٰذا سیاست میں آکر اس مقبولیت میں مزید اضافہ ہو گیا۔

وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ شخضیت ہیں، بہت سی کتابوں کے مصنف میں اور تحریر و تقریر پر پُر اثر قدرت رکھتے ہیں۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور دیگر اجتماعات میں بے شمار تقاریر کیں۔ اسلام اور دیگر مذاہب پر ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔انہوں نے اسلامی مدارس، سکول کالج اور یونیورسٹی کی بنیاد بھی رکھی۔ منہاج القرآن کا ادارہ ان کی کوششوں کا ثمر ہے۔ تاہم جہاں تک سیاسی محاذ کا تعلق ہے، انہیں اور ان کی جماعت کو کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ صرف ان کے ساتھ ایسا نہیں ہوا، بلکہ پاکستان کی سیاست اور حتیٰ کہ قیام پاکستان میں بھی علماء اور دینی رہنماؤں کا کردار بہت مایوس کن رہا ہے۔

یہ بات قابل توجہ ہے جو شخصیت یا جماعت ہر اعتبار سے منظم ہو، دینی معاملات پر مکمل دسترس رکھتی ہو، اسے سیاسی محاذ پر کامیابی کیوں حاصل نہیں ہوتی؟ لوگ اور عوام ان رہنماؤں سے بہت عقیدت رکھتے ہیں، احترام کرتے ہیں اور ان کے اجتماعات میں بھرپور شرکت کرتے ہیں۔ ان کی تصنیف کردہ کتابیں شوق سے پڑھتے ہیں اور دینی معاملات میں مستند تصور کرتے ہیں، لیکن نجانے کیوں وہ انہیں انتخابات میں اس بھرپور طریقے سے کامیاب نہیں کرواتے اور سیاست، حکومت اور حکمرانی کا اہل تصور نہیں کرتے۔ ایک بڑی مثال جماعت اسلامی کی ہے جو تقسیم برصغیر پاک و ہند سے قبل بھی ایک مقبول مذہبی جماعت رہی ہے۔اسی طرح جمعیت علمائے ہند، بعدازاں جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علماء اسلام اور دیگر مذہبی جماعتیں، سیاسی و حکومتی محاذوں پر اس قدر کامیابیاں حاصل نہیں کر پائیں کہ حکومت کر سکتیں، بلکہ اس کے برعکس ان جماعتوں کے رہنماؤں، جن کا ملکی و معاشرتی سطح پر بے حد عزت اور احترام کا مقام تھا، کوچہ ء سیاست میں آکر اس نام کی قدر و منزلت کھو بیٹھے۔


تحریک پاکستان میں جو لوگ نمایاں رہے، وہ عالم دین، مذہی رہنما یا مذہبی شخصیات نہ تھے۔ ایک بڑی مثال قائداعظم کی ہے جو انگریزی لباس پہنتے، انگریزی بولتے اور سگار پیتے تھے۔ پورا برصغیر اس رہنما کے پیچھے تھا اور وہ قیام پاکستان کا مقدمہ جیت گئے۔ اسی دور کے علماء حضرات نے نہ صرف اس کارخیر میں بھرپور حصہ ادا کیا، بلکہ پاکستان کے قیام کی مخالفت بھی کی جو آج تک ان کے ساتھ نتھی ہے۔ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور اس کے قیام کا ایک ہی فلسفہ تھا، ”پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ“…… لیکن اس مملکت خداداد کو بنانے والا کوئی عالم دین یا مذہبی شخصیت یا مذہبی جماعت نہیں تھی۔ اسی طرح الیکشن 1970ء میں ذوالفقار علی بھٹو کامیاب ہوئے اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن جیتے،وہاں بھی ایک مولانا، مولانا عبدالحمید بھاشانی سیاست میں بہت سرگرم رہے ہیں، تاہم انہوں نے 1977ء میں مشرقی پاکستان کے سیاسی حالات بھانپ لئے اور ان انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔


ڈاکٹر طاہر القادری کے علم، مطالعہ اور اسلامی معاملات پر عبور سے انکار نہیں۔ ایک دنیا ان کی گرویدہ ہے، لاکھوں کی تعداد میں ان کے شاگرد اور معتقد دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ اخبارات اور سوشل میڈیا کی زینت بھی بنے ہوتے ہیں اور مذہبی و سیاسی اور علمی حلقوں میں ایک معتبر نام ڈاکٹر طاہر القادری کا ہے، لیکن سیاسی طور پر انہیں قبول نہیں کیا جاتا۔


علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا……
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو!
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
عجیب بات ہے کہ علامہ اقبال کا یہ شعر پاکستان کی سیاست پر کیوں فٹ نہیں بیٹھ رہا؟ یا یہ کہ ہمارے ہاں کا نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ عوام سیاست کو مذہب کا حصہ تصور نہیں کرتےّ وہ سیاست کو ایک الگ ہی کوچہ سمجھتے ہیں کہ جس کا مذہب یا اخلاقیات سے کوئی خاص تعلق نہیں۔ لوگ اب بھی یہی کہتے سنے جاتے ہیں کہ ”پاکستان کی سیاست میں بہت گندہے“۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ لوگ سیاست سے مراد صرف انتخابات اور حکومت سازی لیتے ہیں، جس کا عوامی فلاح سے کوئی تعلق نہیں۔ واپس طاہر القادری کی طرف آتے ہیں۔ ہماری دانست میں انہیں سیاست کو خیر باد نہیں کہنا چاہیے تھا۔ وہ ایک زبردست اپوزیشن لیڈر اور اپوزیشن کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔شاید اپنی سیاسی ناکامیوں سے دلبرداشتہ ہو کے انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے، یعنی بقول ساحرلدھیانوی……


وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا

مزید :

رائے -کالم -