ہنزائی نوجوان آگ کے الاؤ کو پھلانگتے اور آگ سے کہتے تھے،”میری زردی تجھے لگے ، تیری سرخی مجھے لگے!“

ہنزائی نوجوان آگ کے الاؤ کو پھلانگتے اور آگ سے کہتے تھے،”میری زردی تجھے لگے ...
ہنزائی نوجوان آگ کے الاؤ کو پھلانگتے اور آگ سے کہتے تھے،”میری زردی تجھے لگے ، تیری سرخی مجھے لگے!“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : عمران الحق چوہان 
قسط:148
جاوید نے بتا یا کہ اہرامی تعمیر کا یہ روحانی پہلو مصر سے ترکی کے راستے ہنزہ پہنچا ہے لیکن اب یہاں زیادہ تر 5 تہیں بنائی جاتی ہیں ( 5کے ہندسے کی بھی کراماتی اہمیت کم نہیں!)۔ اس اہرامی چھت کے بارے میں ہنزہ کے لوگوں کاعقیدہ ہے کہ اس سے رحمت اور سکون کی حامل شعاعیں گھر میں آتی ہیں۔ اس روشن دان سے آنے والی روشنی کا حلقہ بہت مقدس اور رحمت بخش ما نا جاتا تھا۔ حاملہ عورتیں اس حلقے میں بیٹھ کر اولادِ نرینہ یا اچھی اولاد کی دعا کرتی تھیں اور مرد ا اس کے وسط میں کھڑے ہو کر پنی ٹوپی کو الٹا کر کاسے کی طرح پھیلا تے اور دعائیں مانگتے تھے۔ 
مرکزی بڑے کمرے کی تعمیر بالکل ویسی ہی تھی جیسی آج بھی ہنزہ کے روایتی گھروں میں نظر آتی ہے۔ دھویں سے سیاہ اہرامی چھت کے وسط میں روشن دان جس کے نیچے آگ جلانے اورکھانا پکانے کےلئے مٹی کا چولہا،جس کی آگ برفیلی راتوں میں کمرہ گرم بھی رکھتی تھی۔ آگ دہکانے کےلئے بکرے کی سالم کھال کی دھونکنی۔ جس طرح گرم خِطّوں میں پانی کو اہمیت حا صل ہے اسی طرح سرد برفانی علاقوں میں آگ مذہبی، سماجی اور گھریلو زندگی میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ سرخ دہکتی آگ۔۔۔ سرد منجمد موسموں میںزندگی کی حرارت اور بقاءکی علامت۔ چنانچہ21 دسمبر کی یخ بستہ رات کو منائے جانے والے جشن میں، جب ہنزہ میں جانور ذبح کر کے محفوظ کیے جاتے تھے، ہنزائی نوجوان آگ کے الاؤ کو پھلانگتے اور آگ سے کہتے تھے،”میری زردی تجھے لگے ، تیری سرخی مجھے لگے!“
 اس چولہے کے ارد گرد برامدہ جس میں بیٹھنے سونے کا بند و بست۔ برتن بھی پتھر، دھات اور سوکھے کدوؤں کے، بڑی دیگوں سے لے کر چھوٹی کیتلیوں تک۔ دیواروں پر آلات اور مختلف ہتھیاروں کے ساتھ مشاہیر کی تصاویر، طاقچوں میں پہلے کبھی اندھیری ر اتوں میںدیے جلتے ہوں گے لیکن فی الحال برقی بلب نصب تھے جن کی روشنی میں روایتی برتن چمکتے تھے۔
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم :
انہی نیم تاریک کمروں میں سے بعض کے نیچے تہ خانے یا کوٹھڑیاں تھیں جو ان کمروں سے بھی زیادہ تنگ و تاریک تھیں۔اس وقت ان کے اوپر لوہے کے جنگلے تھے جن سے اند جھانکا جا سکتا تھا جہاں دھندلے بلب جلتے تھے جن کے نیم اجالے میں اندر کا ما حول نظر آتا تھا۔ یہ دراصل زندان تھے جہاں ہنزہ کے مجرموں کو رکھا جاتا تھا۔ ہنزہ کے تھموں کے دورِ تزک واحتشام کی یادگار۔ ہر قیدی کی زندگی اذیت ناک ہی ہوتی ہے لیکن اس معاملے میں بھی ہنزہ کے تھم دوسروں سے آگے تھے۔بعض اوقات ان بندی خانوں کے اوپربیت الخلا ءبنائے جاتے تھے اور شاہی خاندان کے لوگوں کا سارا بول و برازقیدیوں پر برستا تھا۔ وہ تو شکر ہے ہنزائی قیدی شریف تھے ورنہ ایسی صورت ِ حال کا نتیجہ حکمرانوںکےلئے برا بھی نکل سکتا تھا اور کوئی زندانیٔ واہیات ، شرمندگیٔ تاحیات کا سبب بن سکتا تھا۔
ایک کمرے کے وسط میں مٹی کا ایک چوڑا اور بے ڈھنگاسا ستون نظر آیا بل کہ ستون بھی کیا ایک چوڑی دیوار سی تھی جس کے متعلق جاوید کا کہناتھا کہ یہ ایک کھڑی قبر ہے۔ کہانی کے مطابق پرانے دور میں کسی باغی یا گستاخ کو میر صاحب نے جلال میں آکر اس ستون نما دیوار میں زندہ چنوا دیا تھا۔(ہم تو جلال الدین اکبر ہی کو ایسا شقی القلب سمجھتے تھے لیکن اب پتا چلا کہ وہ اکیلا اتنا ظالم نہیں تھا اور نہ ہی اسا طیری تاریخ میں اب انار کلی اکیلی رہی تھی) قلعے کی مر مت کے دوران اس ستون کو توڑا گیا تو اس میں سے ایک ڈھانچا نکل آیا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ اسے یوں ہی بند کر دیا جائے۔لہٰذا اسے دوبارہ اسی طرح بند کردیا گیا(مجھے تو یہ محض کہانی ہی لگی)۔
”کم از کم اس غریب کو لٹا ہی دیتے۔ اتنی مدت سے کھڑا کھڑا تھک گیا ہوگا۔“ سمیع نے ہلکے سے سر گوشی کی۔
”کبھی کبھی حکمران چلے جاتے ہیں سزائیں جاری رہتی ہیں۔“ میں نے جواباً سرگوشی کی۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔