فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر568
ہجوم ایسا کہ خدا کی پناہ۔ حد درجہ ہنگامہ، شور و غلِ بھاگ دوڑ اور چیخ و پکار۔ لوگ دیوانہ وار ٹکٹوں کے حصول کے لیے بھاگے پھر رہے تھے لیکن بھائی صاحب نے پہلے ہی ٹکٹوں کا بندوبست کر لیا تھا اس لیے ہم دونوں تھوڑے سے دھکے کھانے کے بعد سینما کے اندر پہنچ گئے۔ یہ افراتفری کا عالم کافی دیر تک طاری رہا جس کے بعد رفتہ رفتہ لوگ اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے اور سارے ہال میں یکایک ایک پراسرار سناٹا چھا گیا۔
شہنشاہ جہانگیر اور ملکہ نور جہاں کو دیکھنے کی تمنا ہر ایک کے دل میں بے تاب تھی۔ کوئی اونچی آواز میں بات تک نہیں کر رہا تھا کہ مبادا شاہی آداب کی خلاف ورزی ہو جائے۔ بھائی صاحب نے سینما میں داخل ہونے سے پہلے ہی ہمیں ضروری ہدایات دے دی تھیں جن کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ فلم بے ادبی اور بے پروائی سے دیکھنے والی نہیں ہے۔ یہ مغلیہ سلطنت کے ایک بہت مشہور و معروف شہنشاہ اور اس کی ملکہ سے تعلق رکھتی ہے جس کے حسن و جمال، ذہانت، ایجادات اور جدت پسندی کا ایک زمانہ قائل ہے۔
بھائی صاحب نے ہمیں یہ بھی بتا دیا تھا کہ اس فلم کی کہانی دراصل عدل جہانگیری سے تعلق رکھتی ہے۔ جہانگری کے عدل و انصاف کا سارے جہاں میں چرچا تھا ہم نے یہ بھی سنا اور پڑھا تھا کہ شہنشاہ نے اپنے محل کے سامنے ایک موتی لوہے کی زنجیر بنوا کر لٹا دی تھی جس کے آخری سرے پر مندروں اور گرجا گھروں جیسی گھنٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ دن اور رات کے کسی حصے میں بھی اگر کسی سے بے انصافی ہو رہی ہو اور وہ فوری انصاف کا طالب ہو تو یہ زنجیر عدل ہلا دے۔ فوراً سب کو خبر ہو جائے گی اور شہنشاہ کے حکم کے مطابق اسی وقت انہیں بھی اطلاع دے دی جائے گی۔ شہنشاہ کسی تاخیر کے بغیر سامنے جھروکے میں جلوہ گر ہو کر مظلوم کی فریاد سن کر موقع پر ہی (ضروری گواہیوں کے بعد جو فوراً پیش کر دی جاتی تھیں) فیصلہ سنا دیتا تھا جو کہ حکم آخر کا درجہ رکھتا تھا۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر567 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ذرا غور فرمائیے کہ بادشاہت کے جس دور کو بڑا اور خرابیوں سے آلودہ سمجھا جاتا ہے اس زمانے میں عام آدمی کو کس طرح فوری انصاف مل جاتا تھا۔ اس کے برعکس آج کے جمہوری اور ترقی یافتہ دور میں پولیس کی فوج در فوج اور عدالتوں کا وسیع نظام ہونے کے باوجود عام آدمی زندگی بھر انصاف کے حصول کے لیے ترستا ہی رہتا ہے۔
فلم شروع ہوئی تو جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا۔ سانس لینے کے سوا کوئی دوسری آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ شہنشاہ جہانگری کو بہ نفس نفیس انسانی پیکر میں دیکھ کر دیکھنے والے حیران تھے اور یہ بھول گئے تھے کہ یہ اصلی جہانگیر نہیں ایک اداکار چندر موہن ہے۔ اس کے بعد جب ملکہ نور جہاں جلوہ افروز ہوئیں تو سانسیں بھی رکھنے سی لگیں۔ ہماری یہ مثال تھی کہ چہ پدی اور چہ پدی کا شوربا۔ عینی اتنے نو عمر تھے کہ ذوق لطیف کی باریکیوں اور حسن جمال کی رعنائیوں کا بہ خوبی اندازہ نہیں لگا سکتے تھے مگر جب ملکہ نور جہاں کو دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئے۔ ایسا حسن، ایسی تمکنت ، ایسا وقار اور جاہ و جلال اور اسکے ساتھ ساتھ دلکشی اور کشش۔ یقیناًیہ کوئی عام عورت نہیں ہو سکتی۔ یہ ملکہ نور جہاں ہی ہے جس کے عشق نے جہانگیر جیسے شہنشاہ کو دیوانہ بنا رکھا تھا۔
فلم ’’پکار‘‘ کی کہانی کا موضوع نام ہی سے ظاہر ہے۔ سہراب مودی صاحب نے بہت تحقیق و جستجو کے بعد اس دور کے ملبوسات، سامان آرائش، طور طریقے اور آداب شاہی دریافت کرکے پیش کیے تھے دہلی کے میوزیم سے ملبوسات اور دوسری شاہانہ آرائش کے خاکے حاصل کئے گئے تھے۔ علما فضلا سے شاہی طور طریقیوں ، رکھ رکھاؤ اور شہنشاہوں کے سامنے آداب شاہی کے بارے میں معلومات حاصل کی گئی تھیں اس پر طرہ کمال امروہوی کے مکالمے تھے جنہوں نے ہر کردار کے ساتھ اسی کی حیثیت کے مطابق مکالمے لکھے تھے۔ ان سب چیزوں نے باہمی آمیزش سے ایک سماں سا باندھ دیا تھا۔ دیکھنے و الے اس بلیک اینڈ وائٹ فلم کو دیکھتے ہوئے بھی مغلیہ جاہ و جلال اور شان و شوکت کا بہ خوبی اندازہ لگا سکتے تھے۔ دیکھنے والوں پر جیسے کسی نے جادو کر دیا تھا۔ کسی کو کسی کی خبر تھی نہ ہوش۔ واقعی سہراب مودی نے ایک عظیم کارنامہ سر انجام دیا تھا۔ کمال امروہوی نے ایسے مکالمے تحریر کیے تھے جو آنے والے مکالمہ نگاروں کے لیے سالہا سال تک سند بن گئے۔
بادشاہ اورملکہ کی آمد کس طرح ہوا کرتی تھی۔ درباریوں، امرا اور کنیزوں کا طرز عمل کیسا ہوتا تھا۔ ان سے تخاطب کے لیے کیسے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے اور شہنشاہ اور ملکہ کس انداز میں گفتگو کرتے تھے۔
مثلاً شاہ کی آمد کے موقع پر چوبدار کا اعلان’’با ادب با ملاحظہ ہوشیار، نگاہ روبرو۔ شہنشاہ ہند شاہ عالم، ظل الٰہی حضرت نور الدین جہانگیر تشریف لا رہے ہیں۔‘‘
یہی انداز بعد کے لکھنے والوں نے بھی اپنایا۔ کمال امروہوی نے لکھنے والوں کو ایک نیا سا اسلوب اور انداز دیا۔
بادشاہ اور ملکہ کا تالی بجا کر کہنا’’تخلیہ‘‘ اور حاضرین کا پچھلے پیروں ادب سے غائب ہو کر تنہائی فراہم کر دینا۔
بادشاہ کا رعب دار آواز میں گفتگو کرنا۔ ملکہ نور جہاں کے خلاف الزام سن کر فوری حکم دینا کہ ملکہ عالم کو حراست میں لے کر زنداں میں قید کر دیا جائے۔ درباریوں کی حیرت اور بے حس و حرکت کھڑے رہنے پہ جہانگیر کا موٹی موٹی رعب دار آنکھوں سے گھورنا اور کڑک دار آواز میں کہنا۔
’’تعمیل ہو!‘‘
چند لمحے تو اہل دربار کو اپنے کانوں اور آنکھوں پر یقین ہی نہ آیا مگر پھر شہنشاہ کے گرج دار حکم پر ملکہ کو حراست میں لے لیا گیا۔
کمال امروہوی غضب کے مکالمہ نگار تھے۔ انہوں نے دربار عام میں اورمحل کے اندر نجی گفتگو کے لیے شہنشاہ اور ملکہ کی گفتگو کے لیے مختلف انداز کے مکالمے لکھے۔ نجی گفتگو میں محبت اور ملائمت کے ساتھ ساتھ شاہی دبدبہ بھی شامل ہوتا تھا لیکن دربار عام میں شہنشاہ سر تاپا جلال بن جاتا تھا۔
اس فلم میں زندان میں ملکہ کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا گیا جو عام قیدیوں کے ساتھ روا رکھا جاتا تھا۔ کوئی رعایت نہیں دی گئی۔ تانبے کی رکابی میں جوار کی سوکھی روٹی کھانے کو دی جاتی تھی جوظاہر ہے کہ ملکہ کے حلق سے نیچے نہیں اترتی تھی۔ جب شہنشاہ زندان میں اپنی محبوب ملکہ بلکہ دل و جان کی مالکہ سے ملاقات کے لیے گئے تو شہنشاہ کے یہ مکالمے اس وقت سے آج تک یاد ہیں۔
’’ملکہ! اگر تم ملکہ ہو تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جب چلو تو عوام کے دلوں کو روندتی ہوئی چلو۔ انہیں کیڑے مکوڑے سمجھ کر قدموں تلے پامال کر دو۔‘‘
ممکن ہے بعینہ یہ الفاظ نہ ہوں مگر قریب قریب یہی الفاظ تھے جو آج بھی کانوں میں گونج رہے ہیں۔
ملکہ نور جہاں ابتدائی مناظر میں شہنشاہ کی منظور نظر دکھائی گئیں لیکن قید کے دوران شہنشاہ نے جذبات کا قطعی اظہارنہیں کیا۔ وہ ایک سخت گیر، انصاف پسند شہنشاہ کے روپ میں سامنے آیا۔
قصہ یہ تھا کہ ایک روز ملکہ نور جہاں شکار کھیل رہی تھیں کہ ان کے کمان سے نکلا ہوا ایک تیر دریا پر کپڑے دھونے والے ایک دھوبی کے سینے میں پیوست ہوگیا اور وہ مر گیا۔ بیوہ دھوبن ے واویلا کیا اور فریاد لے کر ’’زنجیر عدل‘‘ ہلانے کے لیے پہنچ گئی۔ لوگوں نے بہت سمجھایا مگر وہ باز نہ آئی۔ اسے اپنے شوہر کے خون کا بدلہ اور انصاف درکار تھا خواہ قاتلہ ملکہ نور جہاں ہی کیوں نہ ہو۔ یہ جہانگیر کے عدل و انصاف کا امتحان تھا۔
شہنشاہ نے مقدمے کی کارروائی کی۔ گواہوں کے بیانات اور ملکہ نور جہاں کا بیان سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ جس طرح ملکہ کے تیر نے دھوبن کے شوہر کو ہلاک کرکے اسے بیوہ بنا دیا ہے اسی طرح دھوبن کو بھی حق حاصل ہے کہ تیر چلا کر ملکہ کے شوہر کو ہلاک کر دیا ور ملکہ کو بیوہ کر دے۔ یہ انتہائی ڈرامائی اور پر اثر منظر تھا۔ کسی کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ ہر ایک پر سکتے اور بے یقینی کا عالم طاری تھا۔
یہ فیصلہ سن کر خود دھوبن بھی گم سم رہ گئی۔
کچھ دیر بعد دبی زبان سے درخواست کی گئی کہ اس فیصلے پر نظر ثانی فرمائی جائے مگر شہنشاہ نے غصے سے ابلتی ہوئی غضب ناک آنکھوں سے درباری کو گھورا اور کڑک دار آواز میں حکم دیا ’’حکم کی تعمیل ہو!‘‘
دھوبن بھی اب شاید پچھتا رہی تھی اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کے ساتھ یوں انصاف کیا جائے گا۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے، جسم لرز رہا تھا مگر شہنشاہ سامنے سینہ تانے کھڑے حکم دے رہے تھے کہ ’’مابدولت کے حکم کی تعمیل ہو۔‘‘
خود ملکہ نور جہاں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے تھے۔ چہرہ فق ہوگیا تھا۔ وہ خود کو (نادانستگی میں) سزا وار سمجھتی تھی مگر اس کے نتیجے میں شہنشاہ کی زندگی دے کر مول چکانا پڑے گا اس نے سوچا بھی نہ تھا ۔ غمناک فریاد بھری نظروں سے شہنشاہ کو چپ چاپ دیکھ رہی تھی مگر بولنے کی تاب نہ تھی۔
یہ منظر اس فلم کا کلائمکس تھا اور یہ سچ ہے کہ ایسا ڈرامائی اور عجیب و غریب کلائمکس بہت کم فلموں میں دیکھنے میں آتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ قاضی صاحب نے دست بستہ عرض کی کہ جہاں پناہ۔۔۔اسلام میں خوں بہا کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ دھوبن کی مرضی دریافت کی گئی تو وہ خوں بہا لینے پر آمادہ تھی اس کا کہنا تھا کہ شہنشاہ کے انصاف کے ذریعے اس کا شوہر تو دوبارہ واپس نہیں آئے گا مگر ہندوستان یتیم اور رعایا کی کروڑوں عورتیں بیوہ ہو جائیں گی۔
خدا خدا کرکے یہ روح خشک کرنے والا کلائمکس ختم ہوا تو سب کی جان میں جان آئی۔ اس کے بعد شاہی محل کی خلوت میں ملکہ اور شہنشاہ کے مابین جو گفتگو ہوئی وہ ان کی باہمی محبت کا اظہار تھی۔ ملکہ نے فرمایا کہ اس فیصلے کے بعد میں خود بھی زندہ نہیں رہ سکتی تھی۔
عدل جہانگیری کے بارے میں کتابوں اور تواریخ میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ سہراب مودی نے تاریخ کے اسی باپ کو فلم کا موضوع بنایا تھا اور اس خوب صورتی سے یہ کہانی پیش کی گئی تھی کہ دیکھنے والے ششدر رہ گئے تھے۔ ’’پکار‘‘ کو ان لوگوں ے بھی دیکھا جنہوں نے زندگی میں اس سے پہلے کوئی فلم نہ دیکھی تھی اور نہ ہی اس کے بعد دیکھی۔
ہماری اماں بھی ان ہی میں شامل تھیں۔ انہوں نے کبھی فلم نہیں دیکھی تھی مگر ’’پکار‘‘ دیکھنے کی فرمائش کی اور یہ فلم انہیں بہت پسند آئی۔ یہ ہماری کم سنی کے دنوں کا ذکر ہے۔ اس وقت ہماری عمر چھ سال سال ہوگی۔
ایک طویل عرصے بعد جب ہم نے اپنی پہلی فلم ’’کنیز‘‘ بنائی اور اسکا بہت شہرہ ہوا تو اماں کا دل بھی پسجا اور ایک دن انہوں نے پانکی گلوری منہ میں رکھتے ہوئے کہا’’بھئی سنا ہے تم نے پرانی تہذیب کے حوالے سے فلم بنائی ہے اور سب اس کی تعریف بھی کر رہے ہیں۔ میں بھی تمہاری یہ فلم دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘
ہمیں اپنے کاموں پر یقین نہیں آیا کہ اماں خود سے ہماری فلم دیکھنے کی فرمائش کریں گی۔ ہم خوشی سے اچھل پڑے۔ فوراً سینما فون کیا اور بہترین سینما میں ایک خصوصی باکس کا اہتمام کرایا۔ یہ باکس نچلی منزل پر تھا تاکہ اماں کار سے نکل کر چند قدم چلنے کے بعد باکس میں پہنچ جائیں۔ اس طرح اماں نے فلم ’’کنیز‘‘ دیکھی۔
ہم اس وقت سینما میں موجود نہ تھے۔ جب گھر پہنچے اور حسب عادت اماں کے پاس گئے تو وہ ہماری منتظر تھیں۔
’’بیٹا۔ تم نے بہت اچھی فلم بنائی ہے۔ دیکھو۔ آئندہ بھی ایسی ہی فلمیں بنانا۔ اللہ تمہیں خوش اور جیتا رکھے۔‘‘
ہم اماں سے لپٹ گئے۔ اس سے بڑا اعزاز ہمارے لیے تمام فلمی ایوارڈ بھی نہ تھے جو ہمیں مختلف اداروں نے دیے تھے۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر569 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں