فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر569
اس زمانے میں ایوارڈ حاصل کرنا آسان کام نہ تھا۔ صرف یہ دیکھئے کہ کنیز اور آغا جی اے گل اور شریف نیر صاحب کی پہلی رنگین فلم ’’نائلہ‘‘ ایک ہی سال میں ریلیز ہوئی تھیں۔ کئی ایک ممتاز ہدایت کاروں، فلم سازوں اور مصنفین کی فلمیں بھی مقابل تھیں۔ شاید یہ اماں کی دعا کی برکت تھی۔
فلم ’’پکار‘‘ سہراب مودی کے فلم ساز ادارے منرو اموویٹون کے تحت بنائی گئی تھی۔ منرو امویٹون سہراب مودی اور ان کے بھائی کا ذاتی ادارہ تھا۔ بمبئی کے سرکردہ فلم ساز اداروں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ اس کا اپنا اسٹوڈیو تھا۔ اور بمبئی کے علاوہ کئی شہروں میں سینما گھر بھی تھے۔ سہراب مودی اس زمانے میں فلمی دنیا پر چھائے ہوئے تھے۔ انہوں نے اوپر تلے کئی کامیاب ترین فلمیں بنائی تھیں جو موضوعات کے اعتبار سے بھی مختلف اور منفرد تھیں۔ سہراب مودی فلم ساز اور ہدیات کار کے ساتھ بہت نامور اداکار بھی تھے۔ اسٹیج اور تھیٹر کے زمانے سے وہ اداکاری کر رہے تھے۔ اس لیے ان کی ایکٹنگ پر تھیٹریکل انداز کی چھاپ لگی ہوئی تھی۔ درمیانہ قد و قامت کے خوب صورت اور باوقار انسان تھے۔ بڑی بڑی آنکھیں، نوکدار یونانی انداز کی ناک اور تیکھے نقش و نگار۔ ان کی سب سے نمایاں خوبی ان کی آواز تھی۔ بہت گھن گرج کے ساتھ مکالمے ادا کرتے تھے۔ اردو کا تلفظ بہت اچھا تھا حالانکہ پارسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی محنت اور صلاحیت کے بل بوتے پر یہ بلند مقام حاصل کیا تھا۔ ان کی اداکاری میں اسٹیج کا رنگ ہمیشہ غالب رہا۔ آغاز میں انہوں نے مشہور ڈراموں پر مبنی فلمیں بھی بنائی تھیں جنہیں بہت کامیابی حاصل ہوئی۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر568 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’پکار‘‘ ۱۹۳۹ء میں نمائش کے لے پیش کی گئی اور ہم نے غالبا ۱۹۴۰ء میں دیکھی تھی کیونکہ بھوپال میں فلموں کی نمائش قدرے تاخیر سے ہوا کرتی تھی۔
اس فلم میں ملکہ نور جہاں کا کردار اداکارہ نسیم جو دلیپ کمار کی بیوی سائرہ بانو کی ماں تھیں نے اس خوبی سے ادا کیا تھا کہ اس پر اصلیت کا گمان ہوتا تھا۔ شاید ملکہ نور جہاں کے کردار کے لیے نہ اس زمانے میں اور نہ اس کے بعد نسیم بانو سے زیادہ موزوں اداکارہ کا انتخاب ممکن ہی نہ تھا۔ نسیم بانو کو اگر حسن کی دیوی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ حقیقی زندگی میں بھی وہ نا قابل یقین حد تک حسین تھیں۔ کشیدہ قامت، بڑی بڑی نشیلی آنکھیں، ستواں ناک، سجل نقشہ اور چہرے کے خدوخال، سرخ و سفید رنگت، سنہری بال( اس زمانے کی فلموں میں رنگت کا اندازہ نہیں ہو سکتا تھا) ان کے سراپا میں ایک انوکھی کشش تھی۔ آنکھیں ہر تاثر کا اظہار کرنے پر قادر تھیں۔ چال میں وقار اور انداز گفتگو میں ایسی تمکنت تھی جو بہت سی سچ مچ کی شہزادیوں اور مہارانیوں کو بھی نصیب نہیں ہوتی۔ ’’پکار‘‘ سے پہلے انہوں نے اور بھی کئی فلموں میں اداکاری کی تھی لیکن ’’پری چہرہ‘‘ کا لقب انہیں اس فلم میں دیا گیا تھا اور وہ صحیح معنوں میں پری چہرہ تھیںَ یوں تو ان کی اور بھی فلمیں ریلیز ہو چکی تھیں مگر ’’پکار‘‘ میں ملکہ نور جہاں کے کردار میں وہ انگوٹھی میں جڑے ہوئے نگینے کی مانند سج گئی تھیں۔ سارا ہندوستان اس فلم کا ’’شہنشاہ جہانگیر کا اور خصوصاً ملکہ نور جہاں کا دیوانہ ہوگیا تھا۔ بڑی عمر کے ایسے لوگوں نے بھی بطور خاص یہ فلم دیکھی تھی جنہوں نے ساری زندگی کوئی فلم نہیں دیکھی تھی اور نہ اس کے بعد کوئی اور فلم دیکھی۔ سب کا کہنا تھا کہ ملکہ نور جہاں اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی۔ مغنی صاحب نے انہیں ’’پری چہرہ‘ کا لقب بالکل صحیح دیا تھا۔
پری بھی اس سے زیادہ حسین نہیں ہو سکتی تھی۔ صرف کندھوں میں لگے ہوئے پروں کا فرق تھا جو پریوں کی تصویروں میں دکھایا جاتا تھا۔ وہ درحقیقت کوہ قاف سے اتری ہوئی کوئی پری ہی نظر آتی تھیں۔
یہ پری چہرہ نسیم ۱۹ جون ۲۰۰۲ء کو ممبئی میں انتقال کر گئیں۔ اس وقت ان کی عمر ۸۱ سال کے لگ بھگ تھی۔ وہ طویل عرصے سے بیمار تھیں اور گوشہ تنہائی میں خاموش اور گمنام زندگی بسر کر رہی تھیں۔ اب زمانہ انہیں دلیپ کمار کی ساس اور سائرہ بانو کی والدہ کی حیثیت سے جانتا تھا۔ ان کا دور عروج اور جاہ و جلال دیکھنے والے اب دنیا میں باقی ہی کتنے رہ گئے تھے۔ انہیں قدرت نے حسن کا نمونہ بنا کر دنیا میں بھیجا تھا اور ان کی تخلیق میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی۔
نسیم بانو کی ننھیال کا تعلق کشمیر سے تھا جو حسن و رعنائی کے لیے مشہور ہے۔ کہتے ہیں کہ ان کی نانی بھی حسن کا نمونہ تھیں اور ان کی والدہ شمشاد بیگم بھی اپنے زمانے میں حسن کی دیوی سمجھی جاتی تھیں۔ وہ کشمیری نژاد تھیں اور امرتسر سے دہلی آکر آباد ہوگئی تھیں۔ جہاں ان کے حسن و جمال اور گلوکاری کا بہت جلد چرچا ہوگیا۔ شہرت سے دور دور تک پھیلی تو دہلی کے علاہو دیگر علاقوں سے بھی پرستار آنے لگے۔ یو پی کے ایک جاگیر دار نواب عبدالوحید خان بھی ان کے مداحوں میں شامل تھے۔ یہ عشق اتنا بڑھا کہ انہوں نے اپنے خاندان کی مخالفت کے باوجود شمشاد بیگم سے شادی کر لی۔
اس زمانے میں ارباب نشاط سے شادی کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ جو لوگ اس ’’جرم‘‘ کے مرتکب ہوتے تھے عموماً انہیں خاندانی جائیداد سے عاق کر دیا جاتا تھا اور ان کا سماجی بائیکاٹ بھی کر دیا جاتا تھا۔ اگر بیٹا اکلوتا یا لاڈلا ہوتا تو اہل خاندان یہ کڑوا گھونٹ پینے پر رضا مند ہو جاتے تھے بلکہ باامر مجبوری، بہو کو وہ قبول نہیں کرتے تھے۔ شوہر کے انتقال کے بعد خاندان والے ایسی بہوؤں کو گھر میں رکھنا پسند نہیں کرتے تھے اور انہیں گھر اور خاندان چھوڑنے پر مجبور کر دیا جاتا تھا۔ اس موضوع پر اردو میں کئی معروف ناول لکھے گئے ہیں اور بے شمار فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ ہدایت کار حسن طارق کو سعادت حسن منٹو کی طرح اس قسم کی مظلوم عورتوں سے بہت ہمدردی تھی اور یہ ان کا دل پسند موضوع تھا۔ ان کی فلم ’’شکوہ‘‘ جس کے مصنفین میں ریاض شاہد اور ہم شامل تھے، اسی موضوع سے متعلق تھی۔ چند سال بعد ہماری پہلی ذاتی فلم ’’کنیز‘‘ کا موضوع بھی یہ تھا لیکن قدرے مختلف انداز میں اس مسئلے کے بعض پہلوؤں کو اجاگر کیا یا تھا۔
مقصود یہ بتاتا ہے کہ نواب عبدالوحید خاں نے جب یہ شادی کی تھی تو یہ بڑے دل گردے کا کام تھا۔ عبدالوحید خاں بہت دولت مند رئیس تھے ۔ انہوں نے نسیم بانو کی والدہ کو دہلی میں ہی میں ایک عالی شان مکان اور زندگی کی دوسری آسائشیں فراہم کر دی تھیں۔ گویا وہ کبھی ان کے خاندان کا حصہ نہ بن سکیں۔ پری چہرہ نسیم، شمشاد بیگم(چھمیاں بائی) اور نواب عبدالوحید خان کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ اس حیثیت سے وہ سارے گھرانے کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور تھیں۔ ان کی کوئی فرمائش کبھی نہیں ٹالی گئی اور انہیں ہمیشہ ناو نعم سے رکھا گیا۔ ان کی تاریخ پیدائش ۲ جنوری۱۹۲۲ء ہے۔ وہ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئی تھیں۔
اردو کا یہ محاورہ ان پر سو فیصد صادق آتا ہے۔ خوش قسمتی نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا۔ سونے چاندی، ہیرے جواہرات کی ان کے پاس کبھی کمی نہیں رہی۔ ہندوستان کے بڑے بڑے والیان ریاست ، شہزادے اور ارب پتی صنعت کار ان کے پرستاروں میں شامل تھے۔ شہرت اور دولت ان کی باندیوں کی طرح تھیں۔ کوئی عورت زندگی میں جن چیزوں کی تمنا کر سکتی ہے وہ سب نسیم بانو کو حاصل رہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ ذاتی زندگی میں بہت سادگی پسند تھیں۔ زیورات کا استعمال بھی بہت کم کرتی تھیں حالانکہ ان کے پاس زیورات اور قیمتی ہیرے جواہرات کی کوئی کمی نہ تھی۔ کہتے ہیں کہ ان کی جوتیوں میں بھی قیمتی ہیرے اور جواہرات لگے ہوئے تھے۔ دولت اور شہرت اور دنیاوی آسائشوں کے اعتبار سے انہیں قدرت نے خواب نوازا تھا۔ حسن دیا تو بے حد و بے حساب جس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ ’’پری چہرہ‘‘ کا لقب ان کے نام کا حصہ بن کر رہ گیا تھا اور وہ صحیح معنوں میں ان کی حق دار تھی۔
انہیں دہلی کے کانوینٹ اسکول میں داخل کیا گیا تھا جہاں سے انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ اس کانوینٹ میں ایک رئیس زادہ احسان بھی ان کا ہم جماعت تھا جو بعد میں میاں احسان کے نام سے مشہور ہوئے۔ بعد میں انہوں نے نسیم بانو سے شادی کرلی تھی اور دنوں نے ایک مشترکہ فلم ساز کمپنی ’’تاج محل‘‘ پیکچرز قائم کی تھی جس کے بینر تلے کئی فلمیں بنائیں گئیں۔ سائرہ بانو جو دلیپ کمار کی بیگم ہیں میاں احسان ہی کی صاحب زادی ہیں۔اس بارے میں پہلے بھی تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔
روشن آرا نسیم نے میٹرک کا امتحان دینے کے بعد مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔ ان کی والدہ انہیں ڈاکٹر بنانا چاہتی تھیں مگر تقدیر کو کچھ اور منظور تھا۔ وہ ایک اداکارہ بن گئیں اور سارے برصغیر میں انکی شہرت خوشبو کی طرح پھیل گئی۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر570 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں