جہاز دریائے نیل کیساتھ ساتھ اسوان کی طرف روانہ ہوا۔ نیچے کرناک مندر کے کھنڈرات اور بادشاہوں اور ملکاؤں کی وادیاں دھوپ میں چمکتی نظر آ رہی تھیں
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:81
اسوان شہر
اسوان شہر الأقصر سے کوئی 200 کلومیٹر دور ہے۔ سڑک کے ذریعے تین ساڑھے تین گھنٹے لگ جاتے ہیں جبکہ جہاز میں یہ فاصلہ سمٹ کر 45 منٹ کا رہ جاتا ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ ہے۔ جہاں زیادہ تر غیر ملکی سیاحوں کی آمدو رفت رہتی ہے۔
اگلے دن کوئی 10 بجے جہازنے ا لأقصر کے ہوائی اڈے سے اڑان بھری اور شہر کا ایک چکر لگاتا ہوا جنوب کی طرف مڑا اور دریائے نیل کے ساتھ ساتھ اسوان کی طرف روانہ ہوا۔ نیچے دریا کے ایک طرف کرناک مندر کے کھنڈرات اور دوسری جانب کے پہاڑی سلسلے میں بادشاہوں اور ملکاؤں کی وادیاں دھوپ میں چمکتی نظر آ رہی تھیں جو کچھ ہی دیر بعد خلاؤں میں کہیں گم ہو گئیں۔پھر وہ گاؤں اور سرسبز کھیت بھی نظر آگئے، جہاں ہم پرسوں گئے تھے۔
جہاز کے مسافرابھی ہوائی میز بان کی طرف سے پیش کئے گئے سینڈوچ اور جوس سے صحیح طرح لطف اندوز بھی نہیں ہوئے تھے کہ حفاظتی بیلٹ باندھنے اور سگریٹ نوشی بند کرنے کا حکم ہوا۔ بس یہ اتنا ہی مختصر سا سفر تھا۔ میں نے کھڑکی کے ساتھ لگ کر بیٹھنے کا پورا فائدہ اٹھایا اور نیچے جھانکتا رہا۔ دور دور تک زرد صحرا پھیلا ہوا تھا،تاہم نیچے دریائے نیل اپنے نیلگوں پانیوں کو وجود میں سموئے پوری جاں فشانی سے ہریالی کے جلو میں بہہ رہا تھا۔ اترنے سے پہلے کپتان نے جہاز کو ایک ہلکا سا چکردیا اور نسبتاً کم بلندی سے سیاحوں کو آس پاس کے خوبصورت مناظر دکھائے۔ خصوصاً اسوان جھیل اور اس پر بنے ہوئے عظیم الشان اسوان بند پر اس نے نچلی پرواز کی اور پھر دھیمے سے رن وے پر اتر گیا۔
یہاں میرا کوئی مستقل گائیڈ نہیں تھا۔ کوئی لمبی چوڑی مصروفیات بھی نہیں تھیں اور نہ ہی یہاں تاریخی طور پر دیکھنے کو اتنا کچھ تھا۔ مجھے دوسرے سیاحوں کے ساتھ مل کر وہی کچھ کرنا تھا جو وہ سب کرتے۔ چھوٹا سا ایئرپورٹ تھا۔ سامان میں صرف ایک بیگ تھا جو اٹھایا اور فوراً ہی باہر نکل آیا۔ وہاں اس وقت صرف ایک دو ہی اچھے ہوٹل تھے جہاں غیر ملکی سیاح قیام کرتے تھے۔ اس لئے میرے ہم سفر زیادہ تر وہیں جانے والے تھے۔ ایئرپورٹ کے کاؤنٹر سے ہی ایک مشترکہ کوسٹر بس کا بندوبست کیا اور پھر ہم کوئی پچیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے اپنے ہوٹل میں پہنچ گئے۔ وہاں بکنگ کے ایک مربوط نظام کے تحت میرا کمرہ پہلے سے ہی مخصوص کر دیا گیا تھا۔
تھوڑا سا آرام کرکے اور چائے کا ایک کپ پی کر میں نے باہر جانے کی تیاری کی۔ ہوٹل کی انتظامیہ والوں نے کہا کہ آپ نے چونکہ اپنا کوئی گائیڈ بک نہیں کروایا ہے اس لئے کوئی مخصوص اور ہر وقت آپ کے ساتھ رہنے والا گائیڈہم آپ کو نہیں دے سکتے، دوسرا یہ کہ یہاں زیادہ تر سیاح شہر کے آس پاس کی سیر و تفریح کا انتظام خود ہی کرتے ہیں۔ پھر بھی خواہش کے مطابق کسی بھی گروپ کے لئے گائیڈ کا بندوبست کیا جاسکتا ہے۔ سارا شہر آپ کی پہنچ میں ہے آپ بسم اللہ کیجئے۔ ہاں کل تاریخی مقامات پر جانے والے ایک گروپ کے ساتھ آپ کو بھی شامل کر دیں گے، جو صبح 10بجے نکلے گا اور دن ڈھلے واپس آئے گااور اسوان کے آس پاس موجود تمام ضروری اور قابل دید مقامات پر آپ کولے جائے گا۔ چونکہ آج کہیں دور جانے کا پروگرام نہیں تھا اس لئے میں نے اِدھر اُدھر سے پوچھ کر اور کچھ سیاحتی کتابچوں کی مدد سے اپنا ہی ایک پروگرام ترتیب دے لیا تھا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں