دسمبر بے وفا نکلا ۔۔۔
ابھی زیادہ کہاں گذرا
فقط اک ماہ بیتا تھا
چمن کی ہر ادا پہ داؤدی مہمان اترا تھا
نومبر کے بدن سے پھو ٹتے غنچوں کی دھڑکن میں
دسمبر سانس لیتا تھا
کہ اس کا جسم تھا ٹھنڈا
مگر تنہائیوں کی پیاس میں تنور جلتا تھا
تیرے ڈر سے دسمبر
فاختائیں شام سے پہلے ہی گھر کو لوٹ جاتی ہیں
تیرے رومان میں گندھ کر
خنک راتوں کی جگمگ اپسرائیں
کسی پرپیچ پیکر میں
یکایک ٹوٹ جاتی ہیں
نومبر
یاد ہی ہو گا
تجھے پچھلا دسمبر بھی
کہ جب تنہائی کی وحشت
اکیلے میں نے کاٹی تھی
نہ باتوں میں کوئی شدت
نہ بانہوں میں کوئی حدت
تجھے تو یاد ہی ہو گا
دسمبر
تو تو واقف ہے
ترے اسرار کو میں نے
کبھی کھلتا نہ پایا ہے
تو کتنا خوبصورت ہے
مجھے معلوم ہی کب ہے
میں لڑکی بالیوں سے تیرے قصے سنتی رہتی ہوں
وہ مجھ سے بات کرتی ہیں اگر تیرے متعلق تو
میں ان سے صاف کہتی ہوں
مری خالی ہتھیلی پر
کسی دلدار موسم نے
کبھی کجھ بھی نہیں لکھا
نومبر بے عطا نکلا
دسمبر بے وفا نکلا
کلام :فرخندہ شمیم