بدنام زمانہ جیل ’گوانتاناموبے‘سے سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف پر امریکی کی کہانی۔۔۔سولہویں قسط
بدن کی گرمائش کے لیے چھلانگیں:
سخت سردی کی وجہ سے اکثر قیدی بیٹھ کر سوتے تھے۔ بیت الخلا بھی کھلا تھا اور پردے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ بدن کی گرمائش کیلیے قیدی اکثر چھلانگیں لگاتے تھے یعنی ایک جگہ کھڑے ہو کر جمپنگ کیا کرتے تھے۔واش روم میں ٹائلٹ پیپر ہوتا نہ پانی اس لیے اکثر قیدی پینے کا پانی اپنی صفائی کے لیے رکھ دیتے اور پانی اس لیے بھی کم پیتے تاکہ پیشاب نہ آئے اسی وجہ سے روٹی بھی کم کھاتے تاکہ لیٹرین کی ضرورت پیش نہ آئے۔ اس کیمپ میں پلیٹ کی بجائے ہاتھ میں کھانا دیا جاتا تھا۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں سے اسی طرح کی سلوک کی توقع رکھی جا سکتی تھی۔ مجھے اس کیمپ میں کم از کم ایک مہینہ رکھا گیا۔ جو قیدی فوجیوں کے ساتھ الجھتے ان کی قید میں پانچ مہینے توسیع کر دی جاتی تھی۔
گوانتاناموبے میں ایک بلاک پاگلوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ جس میں تنگ آکر بعض قیدی خودکشی کر لیتے۔ خود کشی کے واقعات بڑھ گئے تو قیدیوں کو زنجیروں سے باندھ کر رکھا جانے لگا اور نشہ آور چیز کھلا کر یاانجکشن لگا کر ان کو بے یارومددگار چھوڑ دیا جاتا۔
بدنام زمانہ جیل ’گوانتاناموبے‘سے سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف پر امریکی کی کہانی۔۔۔پندرہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ڈیلٹا کادوسرا اور تیسرا کیمپ:
بعد میں دو مزید کیمپ بن گئے۔ایک بہت سخت تھا جبکہ دوسرے میں زندگی نسبتا آسان تھی۔ ایک کیمپ کو فورتھ کا نام دیا گیا اور آخری کیمپ کو فیفتھ کہا گیا۔آخری کیمپ میں بہت سختیاں تھیںَ۔ یہاں زندگی گزارنے کے لیے پہاڑ جتنے حوصلے کی ضرورت تھی۔ اکثر قیدیوں کو اس کیمپ سے یا تو منتقل کر دیا جاتا یاپھر رہا کردیا جاتا۔ ایک فوجی کی میرے ساتھ گپ شپ تھی۔ اس نے بھی مجھ سے یہ بات چھپائی کہ ان قیدیوں کو کہاں منتقل کیا جاتا ہے۔جو بھائی پانچویں کیمپ سے واپس لایا جاتا تو وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیاہوتا۔ ہم اس کی شکل سے ڈرتے۔ اس کیمپ کو قیدی’’پانچویں قبر‘‘ کہتے تھے۔میں نے ایک مرتبہ بوسنیا کے شیخ جابر سے پوچھا کہ آپ کس کیمپ میں ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا ’’میں زندگی کی قبر میں ہوں۔‘‘
چوتھا کیمپ:
چوتھا کیمپ اس لیے بنایا گیاتھا تاکہ جن قیدیوں کو رہا کیا جاتا ہے تو یہاں رکھ کر ان کی صحت بحال کی جا سکے۔ شاید اسی مقصد کے لیے قیدیوں کو پورا کھانا اور وافر مقدار میں فروٹ دیا جاتا۔ اس کیمپ میں200افراد کی گنجائش تھی اور فوجیوں کا سلوک ٹھیک تھا۔ یہاں ہر کمرہ دس افراد کے لیے تھا۔ بلاکوں کے سامنے کھانے اور واک کرنے کی بڑی جگہیں تھیںَ باجماعت نمازپڑھنے اور ورزش کرنے کی یہاں اجازت تھی ہر کمرے میں دو دو پنکھے لگے ہوتے۔ چوبیس گھنٹوں میں ایک بار نمائشی فلم میں دکھائی جاتی اکثر قیدی فلم دکھانے اور دیکھنے کی مخالفت کرتے تھے۔ایک مرتبہ تو ایک عرب بھائی نے ٹی وی توڑ دیا تھا۔ ایک اسکول بھی کھولا گیا تھا اور اس اسکول کے بعض طلباء کی عمر70 سال سے زیادہ تھی۔ طبی چیک اپ کا نظام بھی اچھا تھا۔ فٹ بال، والی بال اور بیڈمنٹن کھیلنے کی اجازت تھی۔ جب کوئی وفد آتا تو کھیلوں کی سرگرمیاں منسوخ ہوجاتیں۔
50لاکھ ڈالر کی رشوت:
ایک دن ایک فرنچ کٹ ڈاڑھی والا تفتیش کار آیا اس نے مجھے کہا کہ آپ کیلیے خصوصی طور پر واشنگٹن سے آیا ہوں۔ مجھے وہ مداری لگتا تھا۔ قریب آیا اور میرے ہاتھ ہاؤں ایسے دیکھنے لگا جیسے کوئی ڈاکٹر ہو۔ میرے زخموں کے نشانات دیکھ کر افسوس کرنے لگا اور پوچھنے لگا کہ ان ظالموں (امریکیوں) نے آپ کو اتنا سخت باندھ کر رکھا؟ ان کو رحم کیوں نہ آیاْ کیوں کیوں کیوں؟ اس کے بعد اس نے میری طرف دیکھ کر کہا ’’میں آپ کے لیے بڑی خوشخبری لایا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہم نے آپ کے لیے پانچ ملین ڈالر مختص کیے ہیں۔ آپ اپنا بینک اکاؤنٹ نمبر دیں۔ اس رقم پر صرف اور صرف آپ کا اختیار ہوگا آپ کے پاس گاڑی ہوگی اپنا ذاتی بنگلہ ہوگا اور آپ کاشمار کابل کے امیر ترین لوگوں میں ہوگا۔‘‘ مجھے یہ سن کر کابل میں مشہور بل اور چوہے کا لطیفہ یاد آگیا کہ اتنا مختصر سفر اور اتنا زیادہ فائدہ؟ ساتھ ہی اپنا بچپن بھی یاد آگیا جب ہم مٹی کے گھروندھے بناتے، محل بناتے، ان میں شادیاں کراتے اور اپنی سلطنت بناتے تھے۔
میں نے پوچھا ‘‘میرے اوپر اتنا احسان آپ کیوں کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
اس نے کہا ’’ہمارے لیے کام کرو۔ ہم جو کہیں ہو مانو پھر عیش کرو‘‘
میں نے کہا ’’ میرے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا سب کچھ ہے۔ آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے بھی آپ کے سوالوں کا جواب سچ سچ دیا ہے اب بھی سچ ہی کہوں گا۔ مجھے اور کچھ نہیں صرف آزادی چاہئے اور بس ۔ دوسرا یہ کہ میرا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں ہے‘‘ اس طرح چار گھنٹے بحث کے بعد وہ چلا گیا۔ مجھے رہائی نصیب ہوئی اور نہ کوئی پیسہ ملا۔
(جاری ہے۔ ستارہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
نائن الیون کے بعد جب امریکی افواج نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کی امن پسندقیادت کوبھی چن چن کر تحقیقات کے نام پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں انہیں جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کیاگیا تاہم ان میں سے اکثر قیدی بے گناہ ثابت ہوئے ۔ملا عبدالسلام ضعیف افغان حکومت کے حاضر سفیر کے طور پر پاکستان میں تعینات تھے لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹراور سفارت کے تمام آداب و اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کو مجبور کرکیااور انکو گرفتارکرکے گوانتانہ موبے لے جاکر جس بیہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد کوروا رکھا اسکو ملاّ ضعیف نے اپنی آپ بیتی میں رقم کرکے مہذب ملکوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیاتھا ۔انکی یہ کہانی جہاں خونچکاں واقعات ، مشاہدات اور صبر آزما آزمائشوں پر مبنی ہے وہاں ملاّ صاحب کی یہ نوحہ کہانی انسانیت اورامریکہ کا دم بھرنے والے مفاد پرستوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔دورحاضر تاریخ میں کسی سفیر کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ حیوانی سلوک اقوام متحدہ کا شرمناک چہرہ بھی بے نقاب کرتا ہے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان مٰیں شائع ہونیوالی تحاریر سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔