سال 2025ء اور لوگوں کے خواب

   سال 2025ء اور لوگوں کے خواب
   سال 2025ء اور لوگوں کے خواب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 سال 2025ء کا آغاز ہو چکا اور21ویں صدی کا ایک چوتھائی اس سال کے اختتام تک مکمل  ہونے جا رہا ہے۔ دنیا حیرت کدوں میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے اور ترقی یافتہ اقوام کے ہاں ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ لگی ہے جو زندہ قوموں کی صحت مند سرگرمی ہوا  کرتی ہے۔پچھلا سال امت مسلمہ کے لئے بہت اندوہناک اور تکالیف سے بھرا ہوا تھا۔ فلسطین پر ہونے والی بربریت  سے اڑنے والی راکھ نے دو ارب مسلمانوں کے چہروں کو گرد آلود کئے رکھا۔ شام میں جاری اندرونی و بیرونی خلفشار بھی ہزاروں مسلمانوں کی جان و مال کے ضیاع کا سبب بنی۔ کشمیر جس پر ہمیشہ ہمارا موقف بہت واضح اور  دوٹوک رہا کتنی آسانی سے بھارت کا حصہ بن گیا جس کو قائداعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا جس کا ذکر بھی اب کہیں سنائی نہیں دیتا۔ ہم سیاسی، معاشی اور انتظامی گردشوں میں اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ عام آدمی تو اب خوشحالی و ترقی کے خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔ پورے معاشی نظام پر گزشتہ سالوں اور خصوصا پچھلے سال  جو بلڈوزر چلایا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جس کا سب سے بڑا شکار وہ مڈل کلاس یا نیم مڈل کلاس طبقہ ہوا جس کی کمر کو دہرا نہیں بلکہ پیس کر رکھ دیا گیا۔ صرف دو تین بنیادی امور پر ہی نظر ڈالیں تو  اس سے ہی اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کیسے غیر محسوس طریقے سے  اس مصنوعی معاشی نظام کالوگوں کو عادی بنا دیا گیا۔پہلے صرف عام آدمی ہی ان مسائل سے دوچار تھا لیکن اب اچھے خاصے مڈل کلاس کے لئے بھی امور زندگی  ناممکن بنا دئیے گئے ہیں۔ کسی نے اس پر آواز نہیں اٹھائی کہ  آخر اتنا بڑا فرق کیسے کسی بھی شعبے میں رونما ہو سکتا ہے جو غیر حقیقی بھی ہو اور غیر منطقی بھی۔وہ وقت زیادہ دور نہیں گیا کہ پانچ مرلے کا مناسب گھر تیس سے چالیس لاکھ میں بن جاتا تھا جس میں پلاٹ کی قیمت بھی شامل تھی۔اب کسی اچھی جگہ پر صرف پلاٹ کی قیمت ہی مکمل گھر کی قیمت سے تین چار گنا بڑھ گئی جس پر کنسٹرکشن کے اخراجات میں بھی اسی تناسب سے  اضافہ ہوگیا۔ یعنی اب عام آدمی تو کیا مڈل کلاس  سے بھی گھر  بنانے کا خواب چھین لیا گیا۔ لاکھوں کی بات کروڑوں تک پہنچتے کوئی وقت  ہی نہیں لگا اور یہ ناقابل برداشت بوجھ خاموشی سے معاشرے کے کاندھوں پر لاد دیا گیا۔ گھر بنانا ایک خواب تھا جو  حلال و حرام کی تمیز رکھنے والوں سے چھن گیا۔اسی طرح گاڑی بھی ہر مڈل کلاس کی ضرورت ہے جن کے لئے کچھ عرصہ اپنی ضرورتوں کو کنٹرول کر کے بچت کر لینے سے گاڑی خریدنایا اسے تبدیل کرنا ایک عام سی بات تھی جو کسی نہ کسی طرح  ہو جاتی تھی۔ لیکن کیسے خاموشی سے یہ خواب بھی ہاتھوں سے چھین لیا گیا۔پچیس تیس لاکھ میں ملنے والی نئی گاڑی کی قیمت تین گنا کیسے ہو گئی، کون سا بلٹ پروف اور جان بچانے والا میٹریل اس میں ایڈ کر دیا گیا کہ وہی گاڑی چپکے سے  ایک کروڑ تک  پہنچ گئی۔دنیا میں کہیں ایسا انقلاب نہیں آیا ہو  گا کہ جس سے چیزیں غیر یقینی حدوں تک مصنوعی انداز سے مسلط کر دی گئی ہوں اور معاشرے میں نافذ العمل بھی ہو گئی ہوں۔ تیسرا ایک اور اہم خواب بھی عام پاکستانیوں سے چھین لیا گیا اور اس میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوا جس میں دوسرے ملک کی پالیسی بھی شامل ہے۔ دوسرے بھی جب دیکھیں کہ  یہ  اپنے ملک کے باشندوں کا خون کس مزے سے پی رہے ہیں تو  چند بوندیں ہمارے حصے میں آ جائیں تو کیا حرج ہے۔ حرمین شریفین کی حاضری ہر کلمہ گو کی خواہش اور خواب ہے۔ حج بیت اللہ کی سعادت کے لئے عمر کے آخری حصے میں جمع پونجی یا ملازمت سے ملنے و الی رقم کا کچھ حصہ کام آ جاتا تھا جس سے اس فرض کی ادائیگی ہو جاتی تھی، لیکن  اب دو یا تین لاکھ میں ہونے والے سرکاری حج کی رقم 12 سے 13 لاکھ تک پہنچ گئی اور یوں یہ فرض، خواہش  اور خواب بھی  عمومی لوگوں کے ہاتھوں سے تو کم از کم جاتا رہا۔ بجلی کے بلوں کولوگوں نے کس طرح گھر کی ضروری اشیا بیچ کر  ادا کیا وہ الگ سے ایک داستان ہے۔  حیرت انگیز تبدیلیاں  صرف دنیا میں ہی نہیں ہمارے ہاں بھی ہوئیں جو ٹیکنالوجی اور معیشت  میں نہیں بلکہ خوابوں کے ریزہ ریزہ کرنے میں ہوئیں۔ آخر اس گیپ کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے اور اس کا توازن کیسے پچھلے چند سالوں کے قریب لانے کی کوئی صورت ہو سکتی ہے یہ اس  سال 2025ء کے آغاز کا سب سے اہم سوال ہے۔اب  تو پلاٹ لے کر گھر بنانے، گاڑی کا ماڈل تبدیل کرنے یا  حج کی سعادت زندگی کے مشکل ترین اہداف بنا دئیے گئے ہیں۔ بنیادی ضرورتوں کے نرخ چار گنا سے بھی زیادہ بڑھ گئے اور اس تناسب سے آمدن صرف اراکین اسمبلی کی ہی بڑھائی گئی۔ پچھلے دنوں سٹاک ایکسچینج کی تابڑ توڑ ترقی کی خبروں سے ہمارا پورا میڈیا گونجتا رہا۔ کسی کو یہ بھی سمجھا دیا جائے کہ اس سے بحیثیت مجموعی پورے معاشی نظام میں کیا تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ کسی عام آدمی تک اس کے اثرات پہنچنے کی کوئی سبیل بھی ہے یا بس وہ یہ دیکھ کر ہی خوش ہوتا رہے کہ سٹاک ایکسچینج نے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دئیے۔ کاش یہ ریکارڈ توڑنے کی خبر دینے والے لوگوں کی ٹوٹی ہوئی کمر کو سیدھا کرنے کا بھی کوئی راستہ نکالیں۔پچھلا سال ہماری سیاسی، معاشی، انتظامی اور امن و امان  کے حوالے سے  بہت سی دلخراش یادیں چھوڑ گیا ہے جو اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ صدی کی یہ چوتھائی مکمل کرنیو الا سال خدا کرے، اس دھرتی پر امن و آشتی خیر و عافیت اور بھلائی کا پیام لانے کا سبب بنے۔ آمین

مزید :

رائے -کالم -