وی سی آر نیا نیا آیا تھا بڑا ہی مہنگا تھا،خواجہ صاحب خرید لائے، ویڈیو فلمیں ابھی عام نہیں ہوئی تھیں 100ریال یومیہ کرائے پر ملتی تھیں 

 وی سی آر نیا نیا آیا تھا بڑا ہی مہنگا تھا،خواجہ صاحب خرید لائے، ویڈیو فلمیں ...
 وی سی آر نیا نیا آیا تھا بڑا ہی مہنگا تھا،خواجہ صاحب خرید لائے، ویڈیو فلمیں ابھی عام نہیں ہوئی تھیں 100ریال یومیہ کرائے پر ملتی تھیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:260
 وی سی آرمارکیٹ میں نیا نیا آیا تھا اور ان دنوں بڑا ہی مہنگا تھا، ہم لوگ اسے خریدنے کی مالی استطاعت تو یقیناً رکھتے تھے، مگر اتنی بڑی رقم اس کام پر لگانے کو ابھی دل نہیں مانتا تھا۔ لیکن خواجہ صاحب نے ذرا بھی تردد نہ کیا اور ایک دن جا کر وی سی آرلے ہی آ ئے۔ سب کے لیے یہ بالکل نئی اور انوکھی چیز تھی کہ بغیر پروجیکٹر کے ہم لوگ گھر  میں بیٹھ کرفلم دیکھ سکتے تھے۔ اس لیے ان سے مٹھائی کھانے کے بعد فلم دیکھنے کی خواہش ظاہر کر دی۔ اس وقت ویڈیو فلمیں ابھی عام نہیں ہوئی تھیں اور کم از کم 100ریال یومیہ کرائے پر ملتی تھیں۔ ٹیکنالوجی بھی ابھی کچھ کمزور تھی اس لیے تصویر کا معیار بھی انتہائی گھٹیا ہوتا تھا جسے عام زبان میں سینما پرنٹ کہتے تھے۔جب یہ فلم وی سی آرپر چلتی تھی تو تصویر واضح نہ ہونے کی وجہ سے آنکھوں پر بڑا بوجھ پڑتا تھا۔خواجہ صاحب کے ساتھ بیٹھ کر ہم نے پہلا شو دیکھا، پھر رات گئے جب بینکاروں کا گروپ دوسری شفٹ ختم کر کے لوٹا تو انھوں نے بھی وہاں حاضری دینا اور فلم دیکھنا ضروری سمجھا۔ خواجہ صاحب چونکہ سارے محلے میں وی سی آرکے اکلوتے مالک تھے اس لیے ہر ایک کو اس کی خوبیاں بیان کرنا، مختلف سہولتوں کاعملی مظاہرہ کرنا اور مکمل فلم دکھانا انھوں نے اپنے فرائضِ منصبی میں شامل کیا ہوا تھا۔ مرو تاً ہر گروپ کے ساتھ بیٹھ جاتے اور شو ٹوٹنے تک بہ نفس نفیس وہاں موجود رہتے اور زبردستی کے ان مہمانوں کی چائے پانی کاخیال بھی کرتے۔ یہ سلسلہ اتنا پھیلا کہ اگلے 24 گھنٹے میں ان کی غزالی آنکھیں کبوترکی طرح سرخ ہو گئی تھیں اور ان میں لال ڈورے اتر آئے تھے، اور اس فلم کا ایک ایک سین ان کو زبانی یاد ہو گیا تھا۔ حتیٰ کہ ان کو اس بات کا بھی پیشگی علم ہوتا تھا کہ فلم میں ریس کرتے ہوئے گھوڑوں میں سے کونسے رنگ کا گھوڑا جیتے گا۔ لیکن پشاوری مہمان نوازی کو مقدم جانتے ہوئے انھوں نے ماتھے پر شکن تک نہ آنے دی، اور اگر کبھی آ بھی جاتی تو اندر جا کر منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مار کر ترو تازہ ہوآتے او رکمنٹری کا سلسلہ وہیں سے آگے بڑھاتے جہاں وہ رکا تھا۔
بھٹو کی وفات کے بعد انھوں نے عملی سیاست میں قدم رکھا اور چند دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کی مقامی تنظیم قائم کی اور اس کو عروج تک پہنچایا۔ اس سلسلے میں وہ پارٹی کے عہدیداروں کودعوتیں بھی کھلاتے جہاں ہم جیسے مخالف اورمنافق لوگ بھی پیپلز پارٹی کے کھاتے میں لذیذ کھانے کھا آتے تھے۔
پاکستان جانے کا ارادہ کیا تو پھر چلے ہی گئے، ذرا بھی انتظار نہ کیا، یہ بھی نہ سوچا کہ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہو گا وہ بھلا کوئی بھر سکے گا۔پشاور پہنچ کر سیاست میں حصہ لینا شروع کیا لیکن وہاں شاید اُن جیسے ایماندار، محنتی، شریف النفس انسان اور جیالے کارکن کے لیے اب کوئی گنجائش نہیں رہی تھی۔ ابن الوقت قسم کے لوگ سامنے آگئے تھے۔ اس لیے سیاست کی طرف ان کا رجحان قدرے کم ہوا اور علم دوستی کا پرانا شوق در کر آیا۔ پھر انھوں نے پشاور میں بچوں کی تعلیم کا ایک بہت ہی جدید اور شاندار تعلیمی ادارہ قائم کیا جو ماشاء اللہ اب کالج بن چکا ہے۔ اپنے آپ کو کل وقتی اس ادارے میں مصروف رکھنے کے باوجود وہ پشاور کی سیاسی اورمعاشرتی محفلوں کی جان تھے۔ اکثر ٹیلی ویژن پروگراموں میں آمد پر وہ اپنے برفانی سر کی وجہ سے دور سے ہی پہچانے جاتے۔ ہم میں سے جو کوئی بھی پہلے ان کو دیکھ لیتا تھا شور مچا کر دوسروں کو متوجہ کردیتا،اور پھر واقعی وہ، وہی نکلتے تھے،ان کے سفید بال جھوٹ نہیں بولتے تھے۔    (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -