ہماری قیمت بس ایک ڈالر؟
ایک محاورہ بچپن سے سنتے آئے ہیں ”قوم فروختند چہ ارزاں فروختند“۔ یہ محاورہ شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ کے اس شعر کا حصہ ہے جو انہوں نے مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کی ریاست کشمیر کو انگریزوں کے ہاتھوں فروخت پر کہا تھا۔ یہ محاورہ علامہ اقبالؒ نے کشمیر یعنی کشمیری مسلمانوں کی انگریز کو فروخت کے معاملے پہ لکھا تھا کہ کیسے مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیریوں کو چند ٹکوں کے عوض گوروں کو بیچ دیا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک کشمیری کی قیمت تین روپے لگی تھی،اس مثال کو بار بار سنا، جگہ جگہ اس محاورے کا استعمال نظر آیا، لیکن یہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ کوئی ”با اختیار“ کیسے اپنے آپ کو اتنا سستا بیچ سکتا ہے، کیسے کوئی خریدار ”ٹکے ٹوکری“ سب خریدسکتا ہے، لیکن جب پاکستان میں قیمتی اداروں کو بیچنے کا عمل شروع ہوا تو پتہ چلا کہ علامہ اقبالؒ نے جو آج سے سو سال پہلے کہا تھا وہ بالکل صحیح کہا تھا۔ ہم تو اس وقت سے ”ٹکے ٹوکری“ ہی فروخت ہو رہے ہیں اور آج بھی فروخت ہوئے جا رہے ہیں۔ ہم کہ جو کبھی ”لاجواب تھے، باکمال تھے“ آج اس قدر ”بے مول“ ہو چکے ہیں کہ ”ہمارا خریدار“ کہتا ہے تمہاری قیمت ”ایک ڈالر یعنی 287روپے“ ہے اور یہ ہماری پی آئی اے کی قیمت ہے۔ کہاں گئی وہ ”باکمال لاجواب لوگ سروس“۔ آج اس کی قیمت صرف 287 روپے لگی ہے۔ یہ بدقسمتی کی انتہاء ہے اور مزید بدقسمتی کہ قیمت لگانے والا ایک پاکستانی ہے،ایک پاکستانی جو کہ ایک بہت بڑی ”رئیل اسٹیٹ“کا مالک بننے جا رہا ہے، جس کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے اندر ایک نیا جدید ترین شہر بنا رہا ہے۔ سنا ہے اس کا ذاتی ٹیلی ویژن سٹیشن بھی ہے اور اب یہ پی آئی اے کی خریداری کے لئے ”کوشاں“ ہیں۔ حکومت نے بولی لگانے کے لئے 85 ارب قیمت جاری کی تھی مگر رئیل سٹیٹ والوں نے ”نیشنل فلیگ کیرئیر“کی قیمت صرف 10ارب لگائی اور جب کہا گیا کہ یہ بہت کم ہے تو انہوں نے ”جواب میں فرمایا“کہ 10ارب تو بہت زیادہ ہیں۔ پی آئی اے کی قیمت تو صرف ”ایک ڈالر“ ہے، انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ یہ وہ نہیں کہہ رہے یہ تو سابق وفاقی وزیر مفتاح اسماعیل نے اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ اگر کوئی ایک ڈالر بھی دیدے تو پی آئی ہاتھ جوڑ کر اس کو دے دینی چاہئے۔یہ ہمارے وزرا بات کرتے وقت، زبان کھولتے وقت تھوڑا سوچ لیا کریں تو شاید ایسے جملے کسی ایسے ”خریدار“کے کام نہ آئیں۔ ایک ڈالر قیمت ہے اس ایئر لائن کی، جس کے پاس 64بین الاقوامی روٹ ہیں آسٹریلیا، کینیڈا، امریکہ، یورپ، مشرق وسطی، مشرق بعید، کہاں کا روٹ نہیں ہے پی آئی اے کے پاس، مگر اصل بات یہ ہے کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں ”عربیوں کی محبت“میں ہم نے خود اپنے ہاتھ کاٹے امارات ائیر لائن بنوا کر۔ عرب ممالک میں کام کرنے والے غریب پاکستانی مزدوروں کی پہلی محبت پی آئی اے تھی۔ پہلے گلف ائیر لائن نے یہ مسافر چھیننے کی کوشش کی۔ پھر دبئی والے میدان میں اُترے اور 25 اکتوبر 1985 ء کو پاکستان نے اپنے دو طیارے ایئر بس 300اور بوئنگ سیون 7300دبئی حکمرانوں کو دیئے تاکہ وہ امارات ایئر لائنز کا افتتاح کر سکیں۔ پہلی پرواز دوبئی سے کراچی پہنچی تو طیارے کا عملہ اور تمام انتظام پی آئی اے کا تھا اور اس وقت کے امارات کے سی ای او مورس فلینگن نے بعد میں کہا کہ ہم نے دو طیارے پی ائی اے سے لیز پر لئے اور دو طیارے مزید حاصل کئے اور صرف چار سال میں اپنی ایئر لائن کے لئے خود طیارے خریدنے کے قابل ہوگئے۔ یہ پی آئی اے کی بربادی کا آغاز تھا جو متحدہ عرب امارات سے پاکستانیوں کو ”لانے لیجانے“پر پی آئی اے کی اجارہ داری کی وجہ سے شروع ہوا اور پھر یہ اجارہ داری نہ رہی۔ بعد ازاں ہمارے حکمرانوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ انہوں نے اوپن سکائی پالیسی بنائی۔1993ء میں جناب میاں نواز شریف کی حکومت نے اوپن سکائی پالیسی کے تحت امارات کو پشاور اسلام آباد اور لاہور ایئرپورٹ دئیے اور پھر 2013ء میں وزیراعظم نواز شریف نے پہلے سیالکوٹ اور پھر ملتان بھی امارات کو سونپ دیا،یعنی پاکستان کے پانچوں بڑے ائیرپورٹ اور لاکھوں مسافر ماہانہ طشتری میں رکھ کر دے دئیے،حالانکہ دنیا بھر میں یہ طریقہ کار ہے کہ جتنی فلائٹیں آپ کی آئیں گی اتنی فلائٹیں ہماری جائیں گی۔ ہم نے امارات کو پاکستان سونپا اور گزشتہ 35 سال میں دو کروڑ 80لاکھ پاکستانی پاکستان سے دوبئی اور وہاں سے دنیا بھر میں بذریعہ امارات سفر کر چکے ہیں۔ یہ ہے وہ بربادی کی داستان کہ جس کی بدولت ہم نے اپنے تمام غریب اوورسیز جو پی آئی اے میں سفر کرنے کو ترجیح دیتے تھے امارات کے حوالے کر دیئے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ پی آئی اے آج اس مقام پر پہنچی ہے کہ کسی کی اتنی جرآئت ہوئی کہ قیمت ایک ڈالر لگانے کی بات کرے،لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں جیسا کہ پہلے کہا ”قوم فروختند چہ ارزاں فروختند“۔ یہ معاملات عرصہ سے جاری ہیں۔ پی ٹی سی ایل کی فروخت بھی ایک ایسا ہی معاہدہ تھا جس کے پیسے بعد میں ہمیں نہیں ملے۔ جھگڑے کی وجہ وہ ”زمینیں“ تھیں، جہاں پر پی ٹی سی ایل کے دفاتر تھے اور غیر ملکی خریدار وہاں پر کمرشل تعمیرات کر کے اربوں کھربوں کمانا چاہتے تھے۔ کچھ باخبر لوگوں کے مطابق اس ”سودے“کا 500سے 700 ملین ڈالر آج دو دہائیوں بعد بھی پاکستان کو نہیں ملا۔ پی ٹی سی ایل ہی کیوں الائیڈ بینک، مسلم کمرشل بینک، حبیب بینک، یونائٹڈ بینک کے معاملات دیکھیں تو یہ بھی ”ٹکے ٹوکری“ ہی بکے تھے اپنی اصل قیمت پر نہیں بکے تھے۔ جب حکمران اپنے ”طفیلیوں کو ملکی اثاثے“بیچیں گی بلکہ ان کے ذریعے دراصل خود خریدیں گے تو پھر سب کچھ ایسے ہی بکتا ہے۔ ہم تو سٹیل مل بھی بیچنا چاہتے ہیں، لیکن سٹیل مل خریدنے والوں کی اصل نظر بھی سٹیل مل سے زیادہ اس کی ”قیمتی زمین“ پر ہے۔خوف ہے کہ اسٹیل مل بکی تو اسٹیل مل کا لوہا سکریپ میں بکے گا اور وہاں ایک نیا شہر آباد ہو جائے گا۔ روسی حکومت اسٹیل مل کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے تیار ہے، لیکن ہم ایک مردہ قوم ہیں ہم ادارے زندہ نہیں کرنا چاہتے ہم ”ادارے دفنانا“پسند کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس وقت سے محفوظ رکھے۔ آمین۔