وہ مصر کی شاندار ترقی کے قصے سناتے رہے،پاکستان کی عمومی ترقی اور فوجی طاقت کا بڑے فخر سے ذکر اس طرح کرتے جیسے یہ سب مسلمانوں کا مشترکہ سرما یہ تھا
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:20
مصری مہمان نوازی
مغرب کی اذانوں کے ساتھ ہی آنکھ کھلی جو ایک ساتھ ہی سارے قاہرہ کی مسجدوں سے بلند ہوئی تھیں اور پھر ایک ساتھ ہی ختم ہوگئیں۔ پاکستان کی طرح یہاں آدھا گھنٹہ تک اذانیں ہی نہیں ہوتی رہتیں۔ پاکستان کے علاوہ سارے ہی اسلامی ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
تب ہی مجھے یاد آیا کہ آج رات کو مجھے راویہ نے کھانے پر اپنے گھر مدعو کر رکھا تھا۔ راویہ بہت ہی خوش اخلاق، پُرخلوص اور محبت کرنے والی ایک گھریلو مصری خاتون تو تھی ہی، لیکن وہ میری ایک چاک و چوبند ماتحت بھی تھی اوروہ بھی ان دنوں چھٹی پر قاہرہ آئی ہوئی تھی۔ اس نے نہ صرف قصر نیل کے قریب اس خوبصورت ہوٹل میں میری رہائش کا بندوبست کرا دیا تھا،بلکہ قاہرہ آنے سے قبل ہی اس نے مجھے اپنے گھر میں آنے کی با ضابطہ دعوت بھی دے دی تھی۔
عشاء کی اذانوں سے کچھ ہی پہلے اس کی بھیجی ہوئی گاڑی مجھے لینے آ پہنچی۔ ڈرائیور کم گو تھا شاید انگریزی نہیں سمجھتا تھا اس لئے ہم دونوں خاموش ہی بیٹھے رہے تھے۔ کوئی 20 منٹ کا سفر طے کرکے میں راویہ کے گھر پہنچ گیا۔ جہاں وہ،اس کا شوہر اور دونوں بچے عمارت کے مرکزی دروازے پر مجھے خوش آمدید کہنے کے لئے کھڑے تھے۔ وہ سب بہت محبت اور خوش دلی سے ملے اور اپنے ساتھ ہی لفٹ میں سوار کرا کے ساتویں منزل پر واقع اپنے شاندار فلیٹ میں لے آئے۔
قاہرہ دنیا کے ان چند بڑے شہروں میں سے ایک ہے جو بہت ہی گنجان آباد قرار پائے ہیں۔ یہاں کراچی ہی کی طرح کا فلیٹ سسٹم تھا۔ انفرادی گھر بنانے کا تو کوئی کروڑ پتی ہی سوچ سکتا ہے۔ ویسے بھی شہر بہت زیادہ پھیل گیا تھا کیونکہ ہر نئے آنے والے کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ شہر کے وسطی یا کاروباری علاقے میں رہائش حاصل کرسکے۔ اس کی واحد صورت یہی تھی کہ شہر کو چاروں طرف پھیلانے کے بجائے اوپر کی طرف اٹھایا جائے یہی وجہ تھی کہ وہاں ہر طرف کثیر المنزلہ رہائشی عمارتیں نظر آتی تھیں۔
میرا خیال تھا کہ یہ ایک معمول کی دعوت ہوگی جس میں ان کے اپنے گھر کے لوگ ہی میرا ساتھ دیں گے۔ لیکن جیسے ہی میں لاؤنج میں داخل ہوا تو حیرانگی سے ان کو تکنے لگا کیونکہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ بہت بڑے پیمانے پر کھانے کا انتظام کیا ہوا تھا بلکہ اپنے دس بارہ دوستوں اور عزیزوں کو اہل و عیال سمیت اس محفل میں بلا رکھا تھا۔ سب نے مجھے دیکھ کر بڑی مسرت کا اظہار کیا اور کچھ خواتین نے تو منھ پر ہاتھ رکھ کر وہی روایتی خیر مقدمی چیخیں بھی ماریں۔ وہ لوگ بڑی محبت اور خلوص سے پاس آکر گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے اور اہلاً و سہلاً مرحبا کہتے۔ میں چند ہی لمحوں میں ان سے بے تکلف ہو کر ان کا ہی بن گیا۔
پھر ہم سب نے وہاں بیٹھ کر بہت اونچی اونچی چھوڑیں۔ وہ سب پڑھے لکھے متوسط طبقے کے لوگ تھے اور گزارے لائق انگریزی بھی بول رہے تھے۔ تاہم وہ میری فراٹے بھرتی ہوئی انگریزی سے بڑے متاثر نظر آتے تھے وہ مجھے مصر کی شاندار ترقی کے قصے سناتے رہے اور میں جواباً اپنے ملک کا جھنڈا اٹھائے بیچ میدان کھڑا ان سے داد سمیٹتا رہا۔ اس وقت تک پاکستان نے ابھی ایٹمی دھماکہ نہیں کیا تھا پھر بھی وہ پاکستان کی عمومی ترقی اور خاص طور پر اس کی فوجی طاقت سے مرعوب تھے اور بڑے فخر سے اس کا ذکر اس طرح کرتے رہے تھے جیسے کہ یہ سب مسلمانوں کا ایک مشترکہ سرما یہ تھا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں