رمیز راجہ کو خوش آمدید‘ لیکن…… 

رمیز راجہ کو خوش آمدید‘ لیکن…… 
رمیز راجہ کو خوش آمدید‘ لیکن…… 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ایک زمانہ تھا کہ ہمارا پیارا ملک بیک وقت چار کھیلوں میں عالمی چیمپئن تھا‘ کرکٹ‘ سکواش‘ ہاکی اور سنوکر‘ اس کے بعد پتہ نہیں کسی کی نظر لگ گئی یا ہم نے ہی تساہل پسندی کو اپنا شعار بنا لیا کہ ہمارا پاکستان کھیلوں کے شعبے میں پیچھے ہی پیچھے ہٹتا چلا گیا اور آج صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ ہماری کرکٹ ٹیم کسی علاقائی مقابلے میں یا ورلڈ کپ میں کوارٹر فائنل یا سیمی فائنل تک ہی پہنچ جائے اور فائنل نہ بھی کھیل سکے یا فائنل کھیل کر نہ بھی جیت سکے تو پوری قوم اچھلتی پڑتی ہے۔ ہمارا کھیلوں کے حوالے سے معیار اس قدر گر چکا ہے کہ ہم نے ’تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے‘ جیسے نعرے بھی بلند کئے اور اولمپکس میں اپنے کھلاڑی کے پانچویں پوزیشن لینے پر بھی فخر سے پھولے نہ سمائے۔ آج کل ٹی وی پر ایک کمرشل چلتا ہے جس میں ایک بچی کہتی ہے کہ ’جو کوئی نہیں کر سکتا وہی تو چیمپئن کرتا ہے‘۔ جب ہم دوسری‘ تیسری‘ چوتھی یا پانچویں پوزیشن آنے پر ہی انہیں سر پر چڑھا لیں گے تو پہلے نمبر پر آنے کا جذبہ کہاں باقی رہے گا؟ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ نچلے نمبر پر آنے والے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہئے اور انہیں انعامات نہیں ملنے چاہئیں‘ ضرور ملنے چاہئیں‘ حوصلہ افزائی بھی ہونی چاہئے لیکن اس عزم کے ساتھ کہ اگلی بار وہ کمی پوری کی جائے گی جس کی وجہ سے اس بار پہلی پوزیشن حاصل نہیں کی جا سکی۔ کیا یہ سوال اہم نہیں کہ رقبے کے لحاظ سے ہم تینتیسویں نمبر پر ہیں اور آبادی کے لحاظ سے دنیا بھر میں پانچویں نمبر پر تو اولمپکس کے میڈل ہمارے پاس چوہتر برسوں میں صرف دس کیوں ہیں (3 سونے کے‘ 3 چاندی کے اور4 کانسی کے) اور ان میں سے بھی آٹھ ہاکی کے کھیل میں جیتے ہیں۔ باقی کھیل؟ اور آخری اولمپکس تمغہ ہم نے 1992 میں جیتا تھا۔ آج 1992 کے بعد 7 اولمپکس گیمز ہو چکی ہیں لیکن ہم ان سب میں ایک بھی میڈل حاصل نہ کر سکے‘ نہ سونے کا‘ نہ چاندی کا‘ نہ کانسی کا۔ کیا وجہ ہے؟ یہ پوری قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے‘ خصوصی طور پر حکمرانوں کے لئے اور کھیلوں اور کھلاڑیوں کی ترقی و فروغ کے لئے بنائے گئے اداروں کے سربراہان کے لئے۔


یہ ساری باتیں مجھے اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ سننے میں آیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے کرکٹ کا کھیل بہتر بنانے کا قصد کر لیا ہے اور اس مقصد کے تحت سابق ٹیسٹ کرکٹر رمیز راجہ کو چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں وزیراعظم نے انہیں پاکستان کرکٹ بورڈ کے بورڈ آف گورنرز میں اپنے نمائندے کے طور پر نامزد کیا ہے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے‘ ایک کرکٹر اگر پی سی بی کا چیئرمین بنے تو اس کھیل میں ہماری کارکردگی بہتر ہونے کے امکانات روشن ہو جائیں گے‘ لیکن میرے خیال میں یہ اقدام وزیر اعظم نے خاصی تاخیر سے کیا ہے۔ یہی کام وہ تین سال پہلے وزارت عظمیٰ کے عہدے پر متمکن ہونے کے فوراً بعد کر لیتے تو آج ہماری کرکٹ کی صورت حال بہتر ہوتی۔ یعنی  پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی عالمی رینکنگ بہتر ہو جاتی۔ اس کے میچ جیتنے کی شرح بڑھ جاتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں میچ جیتنے کی امنگ‘ جذبہ‘ عزم اور ارادہ موجزن ہو جاتا کہ پوری جان لڑا کر ہارنے اور بے دلی سے ہارنے میں بہرحال فرق ہوتا ہے۔ اس وقت بے حد افسوس ہوتا ہے جب تھوڑا سا زیادہ سکور دیکھ کر ہماری ٹیم حوصلہ ہار جاتی ہے اور آندھی میں لرزتے پتوں کی طرح ہماری ٹیم کی وکٹیں ایک کے بعد ایک گرنا شروع ہو جاتی ہیں۔ کتنے ہی میچ ہوں گے جو ہم نے حوصلہ ہار دینے کی وجہ سے ہارے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ بتا دوں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے پیٹرن انچیف کی حیثیت سے جناب وزیر اعظم دو افراد کو حکومتی نمائندے کے طور پر بورڈ آف گورنرز میں نامزد کر سکتے ہیں جن میں سے ایک کو بعد ازاں بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین منتخب کر لیا جاتا ہے۔ جناب عمران خان نے اپنا یہی استحقاق استعمال کیا ہے۔ یہ بات بھی میرے قارئین کے علم میں ہونی چاہئے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا بورڈ آف گورنرز دس ارکان پر مشتمل ہوتا ہے‘ جن میں چار آزاد ارکان ہوتے ہیں، دو وزیر اعظم کے نامزد کردہ ارکان ہوتے ہیں، ایک چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہوتا ہے اور تین ایسوسی ایشن کے ارکان ہوتے ہیں۔


دعا ہے جناب عمران خان صاحب کی یہ کاوش کامیاب ہو جائے اور ہماری کرکٹ ٹیم ایک بار پھر دنیا کی ایک نمبر ٹیم بن جائے اور نہ صرف دوسرے ممالک کے ساتھ سیریز جیتے بلکہ 2023 کا کرکٹ ورلڈ کپ بھی جیت کر لائے۔ اب رمیز راجہ صاحب آگے آ رہے ہیں تو ان کے ذہن میں کرکٹ کو بہتر بنانے کا کوئی منصوبہ ہو گا۔ چند تجاویز میری طرف سے بھی: سکولوں اور کالجوں کی سطح پر اور کلب لیول پر میچوں اورٹورنامنٹس کا انعقاد اچھے کھلاڑیوں کی تلاش میں مددگار ثابت ہو گا۔ کھلاڑیوں کو مسلسل فٹ رکھنے کے لئے اقدامات ہونے چاہئیں‘ روزانہ پریکٹس جاری رہنی چاہئے‘ یہ نہیں کہ جب کوئی ٹورنامنٹ یا سیریز قریب آئے‘ چند روز کا کیمپ لگا لیا‘ یہ تیاری کے لئے ناکافی ہوتا ہے۔ کھلاڑیوں میں صبر‘ حوصلہ اور برداشت پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ پچ پر ٹکے رہیں اور جلد آؤٹ نہ ہوں۔ کوچ کو انہیں بتانا چاہئے کہ جب سکور نہ بن پا رہا ہو اور پچ مشکل ہو تو پھر ٹھہر ٹھہر کر کھیلنے کی ضرورت ہوتی ہے‘ سری لنکا کے رانا ٹنگا کی طرح۔ سب نے دیکھا ہو گا کہ وہ گیند کو بلے سے ہلکی سی ہٹ لگانے کے بعد تقریباً ٹہلتے ہوئے ایک سے دوسری کریز کی طرف جاتے تھے‘ یوں سکور آگے بڑھتا رہتا تھا۔ ان چند چیزوں پر توجہ دے لی جائے تو ہم ایک بار پھر ورلڈ کپ لانے کی پوزیشن میں آ سکتے ہیں۔ 


اور آخری بات یہ کہ مسئلہ صرف کرکٹ کے کھیل کا نہیں ہے‘ باقی کھیلوں میں بھی صورت حال کرکٹ جیسی ہی ہے اس لئے مناسب ہے کہ قومی کھیل پالیسی مرتب کی جائے اور تمام کھیلوں میں رمیز راجہ کی طرح متعلقہ افراد کو آگے لایا جائے تا کہ باقی کھیلوں میں بھی پاکستان کی کارکردگی اطمینان بخش ہو جائے۔ 

مزید :

رائے -کالم -