نالائقیاں 

   نالائقیاں 
   نالائقیاں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ہماری انگریزی ہمیشہ سے کمزور رہی ہے ایک بار انگریزی کے ایک سوال کے بارے ہمارے دوست کہنے لگے آپ کو تو انگریزی کا وہ سوال فلاں لڑکے نے بتایا تھا ہم نے سینہ تان کر بڑی شان سے کہا نہیں ہرگز نہیں وہ سوال فلاں لڑکے نے نہیں بلکہ فلاں نے بتایا تھا اسی طرح کچھ لوگ اپنی نالائقیوں کا اعتراف تو کرتے ہیں لیکن ہماری طرح۔

ایک ایم پی اے صاحب اپنی انتخابی مہم چلا رہے تھے وہ پہلے بھی کئی بار ایم پی اے رہ چکے تھے پانچ سال کچھ کیا نہ کسی کو منہ دکھایا حلقے کے لوگوں کا سامنا کرنا ان کے لئے مشکل ہورہا تھا سوچ میں تھے کہ ووٹرز کو کیابتایاجائے کہ آج پانچ سال بعد انہیں چہرہ دکھایا ہے،وہ انتخابی جلسے میں پہنچے اور طمطراق سے کہنے لگے اب بات حلقے کی نہیں اب بات پاکستان کی ہے ہماری جماعت پاکستان کی تعمیر و ترقی اور استحکام کے لیے میدان میں آئی ہے لوگ اپنے شکوے بھول گئے اور پاکستان کے نام پر پھر ووٹ دے بیٹھے۔

دیہاتی سکولوں کے اساتذہ عجب طبیعت کے مالک ہوتے تھے بچوں سے گھر کے کام کاج کروانا عام سی بات تھی حتیٰ کہ اساتذہ گھر کے تعمیراتی کاموں کی مزدوری تک بچوں سے کروالی جاتی بچوں کو بالجبر ٹیوشن پڑھانے کا رواج عام تھا یعنی جو بچے ٹیوشن پڑھنا نہیں چاہتے تھے انہیں بھی کہنا کہ اپنی خیر چاہتے ہیں تو ٹیوشن کیلئے آجائیں۔ آج بھی بعض دیہاتی سکولوں کے فی میل اور میل اساتذہ کو جانتا ہوں جو خود پڑھاتے نہیں بلکہ انہوں نے پڑھانے کے لیے گاؤں کی میٹرک پاس لڑکیاں یا لڑکے تین ہزار ماہانہ تنخواہ پر رکھے ہوئے ہیں خود اساتذہ کبھی گندم کی کٹائی کبھی دھان تو کبھی کسی اور فصل کے لئے کھیتوں میں ہوتے ہیں ان سکولوں میں پانچ پانچ سال داخل رکھنے کے بعد بالآخر والدین نے بچوں کو پرائیویٹ سکولز میں پچھلی کلاسوں میں داخل کرایا ہے۔

 ہمارے دیہاتوں کے اکثر سادہ لوح لوگ حصول رزق کیلئے بیرون ملک جاتے ہیں جب چھٹی پر اپنے وطن آتے تو جہاں بیرون ممالک سے دیگر سامان لاتے تو وہاں شوقیہ طور پر سگریٹ بھی لے آتے حالانکہ وہ خود سگریٹ نہیں پیتے تھے ایسے ہی ایک صاحب جو بیرون ملک مقیم تھے وطن لوٹے تو دوسرے  سامان کے ساتھ اچھے برانڈ کے سگریٹ بھی لے آئے ان صاحب کا بچہ سکول پڑھتا تھا سکول کے ماسٹر کو معلوم ہوا تو انہوں نے بچے کو بلایا اور کہا دیکھو بیٹا سب جانتے ہیں میں تو پاکستانی سگریٹ پیتا ہوں لیکن بعض اوقات کسی شادی بیاہ یا دوسری تقریب میں جانا پڑتا ہے تو اس لئے سوچا آپ سے کہوں کہ آپ وہ باہر سے آئے ہوئے سگریٹ تو لادینا۔

 ایسی علتیں اور قباحتیں ہمارے معاشرے میں آج بھی موجود ہیں ٹھیک ہے بڑے شہروں میں مختلف اداروں کے دفاتر میں کوئی چیک اینڈ بیلنس ہوگا کوئی تربیت کہیں اخلاقیات نام کی کوئی چیز ہوگی لیکن چھوٹے شہروں سے دور قصبات اور دیہات کے سکولوں ہسپتالوں اور دیگر دفاتر کا عملہ جو اس ملک کے ساتھ کر رہا ہے اس کی توفیق دشمن کو بھی نہیں ہو سکتی میں پاکستان کے مسائل کے بارے سوچتا ہوں تو سر پکڑ لیتا ہوں کہ پاکستان کے مسائل اس قدر زیادہ ہیں کہ انہیں گنتے بھی سالوں لگ جائیں یہاں ایک مسئلے کی نشاندہی کرتا ہوں جو سب سے چھوٹا ہے بلکہ چھوٹا ہوتے ہوئے سب سے بڑا ہے، اس کی خطرناکی بھی بڑی ہے ہمارے شہروں کی سڑکوں پر مویشیوں کا گزرنا ایک عام سی بات ہے سڑکوں پر گزرتے ہوئے یہ مویشی نہ تو کسی دائرہ قانون میں آتے ہیں نہ انکے رکھوالوں کو کسی اخلاقی پہلوؤں کا علم ہے ہمارے شہر کے ایک پروفیسر صاحب کالج جاتے ہوئے سڑک سے اچانک گذرتے مویشیوں سے ٹکرا کر جاں بحق ہو گئے تھے، مویشیوں سے ٹکرا کر ہونے والے حادثات کی تعداد بہت زیادہ ہے اس کے نتیجے میں ہلاکتیں اور زخمی ہونے والے بھی اتنی ہی تعداد میں ہوں گے یہ ایک عام سی بات ہے اس ایک بات پر اگر سڑکوں سے گزرنے والے مویشیوں کے مالکوں سے استفسار کیا جائے تو وہ آپ کی جان کے در پہ ہو جاتے ہیں سڑکوں سے گزرتی گاڑیاں موٹر سائیکلیں کئی بار ان مویشیوں کی زد میں آکر خطرناک انجام سے دوچار ہوچکی ہیں۔ یہ سب سے چھوٹا مسئلہ ہے جسے عام سی بات سمجھا جاتا ہے اور اس چھوٹے مسئلے سے آپ ملک کے بڑے مسائل اور بڑی باتوں کا تعین کر سکتے ہیں  اگر یہ ایک بات انسانی جانوں کی دشمن ہے تو اس بات سے ملک کی بڑی باتوں اور بڑے مسئلوں کے بارے سوچئیے اور اندازہ کیجئے کہ یہ چھوٹی سمجھی جانے والی بات انسانی جانوں کے لیے کتنے سنگین خطرات لیے ہوئے ہے تو پھر اس ملک کی بڑی باتیں اور بڑے مسئلوں کی ہلاکت انگیزیاں کیا ہوں گی؟

 سوچیے پاکستان کو کرپشن کی جو دیمک لگ چکی ہے پاکستان میں اقربا پروری کا جو ناسور بڑھ چکا ہے جو نالائق پاکستان کے مختلف اداروں میں بیٹھے ہیں ملک میں جو ناانصافیوں کے سلسلے دراز ہو چکے ہیں اگر کوئی انہیں ٹھیک بھی کرنا چاہے تو کیسے؟ یہ کرپشن کے کیڑے کون سی دوائی سے مارے جائیں؟چائنہ نے جب ترقی کی راہوں کا سفر شروع کیا تو جہاں انکے حکمرانوں نے عزم کرلیا تو وہاں انکے عوام نے بھی بھرپور ساتھ دیا انہوں نے سادہ غذائیں کھانا شروع کردی تھیں اور ہم دنیا کے قرض کا بار گراں اٹھائے ہوئے پھر بھی آسائشوں اور نمائشوں سے گریز نہیں کرتے اپنے فرائض کی ادائیگی میں دیانت سے کام نہیں لیتے پاکستان کو بیرونی خدشات کم اور اندرونی تحفظات زیادہ ہیں  یہاں شکار پور کی ایک خاتون کمشنر آفس کے سامنے اپنے بچے کو گود میں لئے بیٹھی رہتی ہے لیکن اسکے بچے کو علاج نہیں ملتا نتیجتاً وہ بچہ ماں کی گود میں دم توڑ دیتا ہے اس ماں کے دل کے جتنے ٹکڑے ہوئے انہیں کوئی گن بھی نہیں سکتا گزشتہ دنوں کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں نے ہمارے پولیس کے 12جوانوں کو شہید کردیا دیگر زخمی ہوگئے ہم اپنے ملک میں موجود لٹیروں کا قلع قمع نہیں کرسکتے تو دشمنوں سے کیسے لڑیں گے اس لئے ہمیں اپنی نالائقیوں کا اعتراف کرتے ہوئے لائق لوگوں کو آگے لانا ہوگا۔

مزید :

رائے -کالم -