گاڑی کے سامنے لیٹ کر جان دینے کی”رسم بڑی مقبول“ رہی ہے،تعلیم یافتہ افراد،خصوصاً صاحب دل شعراء اور ادبا ء میں یہ رحجان بہت زیادہ رہا 

گاڑی کے سامنے لیٹ کر جان دینے کی”رسم بڑی مقبول“ رہی ہے،تعلیم یافتہ ...
گاڑی کے سامنے لیٹ کر جان دینے کی”رسم بڑی مقبول“ رہی ہے،تعلیم یافتہ افراد،خصوصاً صاحب دل شعراء اور ادبا ء میں یہ رحجان بہت زیادہ رہا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:89
ریلوے پولیس کے دو ایک اور بھی اہم کام ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہ ٹکٹ چیکر جب کسی بغیر ٹکٹ مسافرکو پکڑتے ہیں تو وہ ریلوے پولیس کے ملازمین کو بلا کر اسے ان کے حوالے کر دیتے ہیں جو انھیں وصول کرکے اسٹیشن پر بنی ہوئی ریلوے پولیس کی چوکی میں بند کروا دیتے ہیں۔ اصولی طور پر تو ان بے ٹکٹ مسافروں کو اس جرم کی سزا ملنا چاہئے جو عام حالات میں ملتی بھی ہے۔ تاہم محکمے میں بد عنوانی عروج پر ہو تو یہ اہلکار بھی پیچھے نہیں رہتے اور گاڑی چلنے سے پہلے ہی کچھ لے دے کر اس کو اسٹیشن سے باہر بھگا دیتے ہیں اور ٹکٹ چیکر بے چارہ بے بسی سے یہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھتا رہتا ہے۔آخری اسٹیشن پر گاڑی خالی ہو جانے کے بعد وہ سارے ڈبوں کا عمومی جائزہ لیتے ہیں اور کوئی بھی مشکوک سامان برآمد ہونے کی صورت میں ریلوے پولیس کے تھانے یا چوکی میں جمع کروا دیتے ہیں -
آزردہ روحیں 
اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص حادثاتی طور پر چلتی ریل گاڑی کے سامنے پٹری  پر آجاتا ہے یا جان بوجھ کر اس کے آگے لیٹ کر خودکشی کرلیتا ہے تو گارڈ ضروری کارروائی کے بعد ریلوے پولیس کے دو اہلکاروں کو وہاں اتار کر گاڑی کو چلنے کا اشارہ دے دیتا ہے۔ اس کے نزدیک گاڑی کو ایسے ”چھوٹے موٹے“ حادثات کی وجہ سے تاخیر کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ پولیس کے یہ اہلکار اس وقت تک وہاں موجود رہتے ہیں جب تک کہ قریبی تھانے کے عملے کو لاش کی حوالگی کا عمل مکمل نہ ہو جائے۔ ابتدائی بیان اور کاغذی کارروائی کے بعد وہ قریبی اسٹیشن پر پہنچ کر وہاں آنے والی کوئی بھی گاڑی پکڑ کر اپنے ٹھکانے پر روانہ ہو جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے وطن عزیز میں ہمیشہ ہی سے گاڑی کے سامنے لیٹ کر جان دینے کی رسم بڑی مقبول رہی ہے۔ جہاں ذرا کوئی ذہنی طور پر پریشان ہوا، قریب ترین پٹری پر پہنچ کر آتی ہوئی گاڑی کے سامنے چھلانگ لگا کر گویا سب دکھوں سے آزاد ہوگیا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ تعلیم یافتہ افراد،خصوصاً صاحب دل شعراء اور ادبا ء میں یہ رحجان بہت زیادہ رہا ہے۔ نجانے کیوں وہ دنیا سے رخصتی کے اس انداز کو ترجیحی بنیادوں پر اپناتے ہیں۔ 
شاعر ہوں مروں گا تو کسی ڈھب سے مروں گا
اے دوست کوئی ریل گزرتی ہے یہاں  سے؟
 پٹری پہ لیٹ جاؤں گا ثروت نہیں ہوں میں 
 پر جانتا ہوں ریل کا پہیہ اداس ہے
 پاکستان کے کئی نامور ادیبوں اور شاعروں نے بھی عین عالم جوانی میں اسی طرح اور اس وقت موت کو گلے لگایا جب وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچے ہوئے تھے۔ اللہ جانے کون سا رنج ان حرمان نصیب لوگوں کو اندر ہی اندر کھا گیا تھا۔ جب زندگی میں اپنی مرضی سے انسان کچھ نہ کر پائے تب دماغ تھک جاتا ہے اور قوتِ مقابلہ ختم ہو جاتی ہے۔ نتیجے میں اِسی طرح چمکتے ہوئے ستارے کتنی آسانی سے خود کو بجھا دیتے ہیں۔ شکیب جلالی، سارہ شگفتہ، ثروت حسین، انس معین اور قمر بشیر ایسے ہی روشن ستارے تھے جنھوں نے ریل کی پٹری کو ہی اپنے سب دکھوں کا مداوا سمجھ کر اپنے لیے نجات کا یہ راستہ چن لیا تھا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -