وہ خود کو نسل انسانی کا رکن سمجھتے ہیں،خود کو کسی سرحد کا پابند نہیں سمجھتے، انہیں یہ بھی گوارا نہیں کہ ان کے دشمن مر جائیں کیونکہ انکے دشمن بھی انسان ہیں 

 وہ خود کو نسل انسانی کا رکن سمجھتے ہیں،خود کو کسی سرحد کا پابند نہیں سمجھتے، ...
 وہ خود کو نسل انسانی کا رکن سمجھتے ہیں،خود کو کسی سرحد کا پابند نہیں سمجھتے، انہیں یہ بھی گوارا نہیں کہ ان کے دشمن مر جائیں کیونکہ انکے دشمن بھی انسان ہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر 
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:190
وہ ناکامی کے خوف میں مبتلا نہیں ہوتے اور درحقیقت اکثر وہ ناکامی کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ اگر وہ پیشہ وارانہ طور پر کامیابی بھی حاصل کر لیتے ہیں تو وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وہ ایک کامیاب انسان ہیں۔ ان کی صلاحیت، قدر اور وقعت ان کی شخصیت اور کردار کے اندر پوشیدہ ہوتی ہے۔ اس لیے بیرونی واقعات، حالات یا افراد، ان کی قدر اور وقعت پر اثرانداز نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ہوتے ہیں …… لہٰذا وہ اپنی دلچسپی اور لطف کی خاطرکسی بھی کام کو انجام دینے کا بیڑہ اٹھا سکتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے سے کبھی نہیں گھبراتے۔ مزیدبرآں وہ اپنے غصے کے ذریعے خود کو غیرفعال اوربے عمل نہیں بناتے۔ اس استدلال کو استعمال کرتے ہوئے وہ دوسرے لوگوں سے بھی اسی روئیے کی توقع رکھتے ہیں۔ وہ دوسروں کو ان کی اسی حیثیت سے قبول کر لیتے ہیں اور وہ اپنے ناپسندیدہ حالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے ہاں غصے کا وجود نہیں ہوتا کیونکہ وہ دوسروں سے توقعات وابستہ نہیں کرتے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی کامیابی کی راہ میں حائل کسی بھی جذبے کو دور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس جذبے کو تقویت دینے میں مہارت رکھتے ہیں جو ان کی کامیابی کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔
یہ خوش اور کامیاب لوگ معذرت خواہانہ انداز اور روئیے سے عاری ہوتے ہیں۔ یہ لوگ دوسروں کو متاثر کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ اس لیے بہتر اور اچھا لباس نہیں پہنتے کہ دوسرے لوگ ان کی تعریف کریں اور نہ ہی وہ اپنی شخصیت اور صلاحیتوں کے ذریعے دوسروں پر برتری ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ سادہ مزاج ہوتے ہیں اور ان کی طبیعت میں انکسار ہوتا ہے اور وہ چیزوں کی اہمیت یا عدم اہمیت سے دھوکا نہیں کھاتے۔ وہ دلائل باز اور بحث باز نہیں ہوتے۔ وہ سادہ انداز ہیں اپنا نکتہ نظر پیش کرتے ہیں، دوسروں کی بات سنتے ہیں اور ایک دوسرے کو قائل کرنے کے عمل کی فضول نوعیت کا ادراک اور احساس کرلیتے ہیں۔ وہ محض یہی کہتے ہیں: ”بس ٹھیک ہے، ہمارے خیالات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ رضامند ہو جائیں۔“ وہ گفتگو کے دوران جیتنے اور ہارنے کا مقصد نہیں رکھتے۔ اگر ان کے رویئے سے برا تاثر ظاہر ہوتا ہے تو وہ خوف زدہ نہیں ہوتے او وہ اپنے اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتے۔
وہ معاشرے میں مروج اقدار اور روایات نہیں اپناتے۔ ان کی پہچان ان کے خاندان، ہمسائے، معاشرے، شہر یا ملک کے ذریعے نہیں ہوتی۔ وہ خود کو نسل انسانی کا ایک رکن سمجھتے ہیں۔ وہ خود کو کسی سرحد کا پابند نہیں سمجھتے۔ انہیں یہ بھی گوارا نہیں کہ ان کے دشمن مر جائیں کیونکہ ان کے دشمن بھی انسان ہیں۔ وہ باہمی تعلقات کے قیام کے ضمن میں معاشرتی روایات اور اقدار کے پابند نہیں ہوتے۔ وہ روایتی حدود وقیود سے کہیں ماوراء ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -