فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر488
’’ بے قرار ‘‘ کے لیے انہوں نے نذیر اجمیری صاحب کے ساتھ غالباً حصہ داری کرلی تھی۔ وہی اس کے مصنف اور ہدایت کار تھے۔ ان کے ادارے کا نام ’’ فلم ساز‘‘ تھا۔ جب 1964ء میں ہم نے فلم سازی کا آغا زکیا تو اپنے ادارے کا نام ’’ فلم ساز ‘‘ ہی رکھا تھا۔ کسی نے اس طرف توجہ نہیں دلائی۔ نہ ہی ایس گل نے کبھی شکوہ یا تذکرہ کیا ۔ کافی عرصے بعد ایک بار کہا کہ بھائی ، آپ نے میرے ادارے پر ہی قبضہ جمالیا‘‘
’’ وہ کس طرح ‘‘؟
’’ فلم ساز تو میرا ادارہ تھا۔‘‘
ہم نے بہت معذرت کی کہ لاعلمی میں یہ غلطی ہوگئی۔ اگر وہ بتادیتے تو ہم یقیناً نام بدل لیتے۔ وہ ہنس کر چپ ہوگئے۔ شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ان دنوں فلم سازی نہیں کر رہے تھے البتہ مال روڈ کے عقب میں ان کا شاندار دفتر موجود تھا جہاں دوستوں کی محفلیں اور خاطر مدارات کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر487پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ بے قرار‘‘ کی منصوبہ بندی کے دوران ہی میں ماسٹر غلام حیدر بھی بمبئی سے اپنے بیوی بچوں سے ملاقات کی غرض سے لاہور سے پہنچے تو گل صاحب اور نذیر اجمیری صاحب نے انہیں اپنی فلم کی موسیقی بنانے کے لیے کہا۔ وہ بمبئی میں ولی صاحب کی ایک فلم ’’ پُتلی‘‘ پر کام شروع کر چکے تھے مگر بے قرار کی کہانی انہیں اتنی پسند آئی کہ اس کی موسیقی بنانے پر آمادہ ہوگئے۔ بے قرار میں برصغیر کے معروف ترین کامیڈین جاری نے بھی کام کیا تھا۔ مگر ان سب کی مشترکہ کوششوں کے باوجود بے قرار نا کام ہوگئی۔ اس کے بعد ماسٹر غلام حیدر بھی لاہور ہی کے ہو کر رہ گئے۔
بے قرار 1950ء میں ریلیز ہوئی تھی۔پاکستان میں ان دنوں فلم سازی برائے نام ہوتی تھی۔ نذیر صاحب بھی بے کار ہوگئے۔ ان کی ایک کہانی فلم ساز و ہدایت کار امین ملک نے ’’ پنجرہ‘‘ کے نام سے بنائی تھی مگر یہ فلم بھی نامساعد حالات اور وسائل کی کمی کے باعث کامیاب نہ ہوسکی۔ امین ملک کے بارے بتاچکے ہیں کہ آج کے پنجابی فلموں کے معروف مصنف و ہدایت کار ناصر ادیب انکے داماد ہیں مگر یہ رشتہ امین ملک کی زندگی میں قائم نہیں ہو اتھا۔ وہ نسبتاً جوانی میں ہی انتقال کر گئے تھے وہ اس وقت پچاس کے پیٹے میں تھے کہ ہارٹ فیل ہوگیا۔
’’پنجرہ‘‘ کی ناکامی نے نذیر اجمیری کی ناکامیوں کی فہرست میں ایک اور اضافہ کردیا۔یہ فلم 1951ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس کے بعد ایک طویل عرصے تک نذیر اجمیری صاحب ہاتھ ہر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ ان کی ضرورتیں محدود تھیں۔ وہ اولاد سے محروم تے۔ ایک بیگم تھیں اور ایک بچی انہوں نے گود لے کر اس کی پرورش کی تھی۔ وہ سادگی کا دور تھا لوگ ہر قسم کے حالات میں عزت سے سفید پوشی کا بھرم رکھ سکتے تھے۔ ابھی پاکستان میں دولت کی ریل پیل ، نام و نمود اور شان و شوکت کی نمائش کا دور شروع نہیں ہوا تھا۔
بالآخر اے آر کاردار صاحب ہی نذیر اجمیری کے کام آئے۔ وہ بمبئی میں مقیم تھے مگر لاہور میں ان کی فلمیں کاردار پکچرز کا ادارہ ریلیز کرتا تھا۔ اس کے انچارج اسماعیل نور صاحب تھے جو کاردار صاحب کے داماد تھے۔ اسماعیل نور صاحب کے بارے میں بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ وہ تعلیم یافتہ روشن خیال اور مجلسی آدمی تھے۔ اس زمانے میں سرکاری فلمی وفود میں وہی فلمی صنعت کی نمائندگی کیا کرتے تھے۔ کاردار صاحب کی فلمیں باقاعدگی سے پاکستان میں آکر نمائش پذیر ہوتی تھیں اور بے حد کامیاب بھی ہوا کرتی تھیں۔
کاردار صاحب کے مشورے پر یا بذات خود اپنے منصوبے کے تحت اسماعیل نور صاحب نے ’’ قسمت ‘‘ کے نام سے ایک فلم بناتے کا آغاز کیا تو مصنف و ہدایت کار کی حیثیت سے نذیر اجمیری صاحب کا انتخاب کیا۔ اس فلم میں مرکزی کردار مسرت نذیر اور سنتوش کمار نے ادا کیے تھے۔ ایم اسماعیل کا بھی ایک جاندار اور دلچسپ کردار تھا۔ ’’قسمت‘‘ انتہائی کامیاب فلم ثابت ہوئی جس نے نذیر اجمیری صاحب کو نئی زندگی بخش دی۔ اسماعیل نور نے تو اس کے بعد کوئی فلم نہیں بنائی مگر نذیر اجمیری کے لیے راستہ ہموار ہوگیا۔ ’’ قسمت ‘‘ کی نمائش 1956ء میں ہوئی تھی۔ اس کی کامیابی کے بعد تقسیم کار نذیر اجمیری صاحب کے متلاشی ہوگئے تھے اور ان کی زندگی کا ایک اچھا خوش حال دور شروع ہوگیا۔
’’قسمت ‘‘ کے بعد نذیر اجمیری صاحب نے اسی نام کے وزن پر دو او رفلمیں بنائیں جن کے فلم ساز بھی وہ خود ہی تھے۔ ’’ شہرت‘‘ 1957 میں ریلیز ہوئی تھی جس میں ہیروئن کا کردار نسرین نے کیا تھا۔ نسرین مثالی حسین و جمال کی مالک تھیں لیکن بدقسمتی سے اتنی اچھی اداکار نہ تھیں ورنہ تہلکہ مچادیتیں۔ ان کی شخصیت ، سرایا اور شکل وصورت پر دوسری ہیروئنیں شک کیا کرتی تھیں۔
’’ شہرت ‘‘ ایک اوسط درجے کی فلم ثابت ہوئی۔
اس کے بعد نذیر صاحب نے ’’ عزت‘‘ کے نام سے ایک فلم بنائی ۔ یہ 1960ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ یہ بھی اوسط درجے کی فلم تھی۔ اسی زمانے میں ان کی فلم ’’ شاردا‘‘ کی کہانی کو ازسر نو لکھوا کر اشفاق ملک صاحب نے ’’سلمیٰ‘‘ بنائی جو کہ ایک سپرہٹ فلم تھی۔
ان کی دو فلمیں قابل ذکر کامیاب حاصل نہیں کرسکی تھیں اس لیے نذیر اجمیری صاحب ایک بار پھر فراموش کر دیے گئے۔ انہیں 1963ء میں ایک فلم بنانے کا موقع ملا۔ اس کا نام ’’ پیغام‘‘ تھا اور یہ ایک کامیاب فلم تھی۔ اگلی فلم ’’ دل کے ٹکڑے ‘‘ بھی کامیاب ثابت ہوئی اور وہ فلم سازی میں مصروف ہوگئے۔ دل کے ٹکڑے 1965ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ ’’پردہ‘‘ 1966ء میں ریلیز ہوئی تھی اور ’’ شب بخیر‘‘ 1967ء میں۔ یہ دونوں فلمیں نمایاں کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی تھیں اس لیے فلمی دنیا نے ایک بار پھر نذیر اجمیری کو فراموش کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے نہ تو کوئی فلم بنائی اور نہ ہی کوئی کہانی تحریر کی۔ 1970ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اس طرح اجمیر سے شروع ہونے والا سفر بمبئی کے راستے لاہور پہنچ کر اختتام پذیر ہوا۔
نذیر اجمیری صاحب نے ہماری ملاقات زیادہ نہیں تھی مگر جب بھی ملاقات ہوئی وہ بہت شفقت اور مہربانی کا اظہار کرتے تھے۔وہ بھاری بدن اور دلکش نقش و نگار کے مالک تھے۔ بڑی بڑی آنکھیں ، کشادہ پیشانی، گندی رنگت۔ بات بہت ناپ تول کر کرتے تھے۔ اپنے عہد کی وضع داری او شرافت و شائستگی کا نمونہ تھے۔
’’ کنیز ‘‘ کی ریلیز کے بعد ہم السرکی وجہ سے طویل بیماری کا شکار ہوئے توہمارا ٹھکانا لاہور کا اس دور کا سب اچھا ہسپتال یو سی ایچ تھا۔ دو ڈھائی سال تک ہسپتال میں ہماری آمدورفت رہی۔ ڈیپریشن سے بچنے کے لیے بھی اہم اس ہسپتال میں داخل ہوجاتے تھے۔ یہاں بہت سے ڈاکٹر امریکی تھے اور انتظامیہ بھی بہت مستعد تھی۔ کمرے ایسے کہ کسی فائیو اسٹار ہوٹل کا گمان گزرتا تھا۔( اس زمانے میں لاہورفائیور سٹار ہوٹل سے محروم تھا)اس کے تمام کمرے ائرکنڈیشنڈ تھے۔ اس زمانے میں ییہ لاہور کا مہنگا ترین ہسپتال تھا مگر کمروں کا کرایہ سن کر آپ حیران رہ جائیں گے۔ ڈبل روم کا کرایہ 32روپے روزانہ تھا۔ اگر دوسرا مریض بھی ہو تو صرف سولہ روپے کرایہ تھا۔ ادویات اور ٹیسٹ وغیرہ ہسپتال ہی کی ذمے داری تھی اور بہت کم قیمت پر دوائیاں مل جاتی تھیں۔ عملہ بے حد تربیت یافتہ اور مہذب تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم وہاں داخل ہونے کے بہانے ڈھونڈا کرتے تھے ۔ 1966ء سے 1969ء کے آغاز تک ہم کسی نہ کسی وجہ سے اس ہسپتال کے مریض رہے۔ اس دوران میں کوئی کام نہیں کیا۔ (جاری ہے)
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر489 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں