دریائے ہنزہ اب ”عطا آباد جھیل“ کی آغوش سے ہو کر نکلتا ہے، دریا پار شاہراہ ِ ریشم دریا کےساتھ ساتھ چلتی چین تک جاتی ہے
مصنف : عمران الحق چوہان
قسط:150
قلعہ التیت کی چھت بھی ایک ایسی چھت تھی جو ہر چھت کی طرح میرے لیے بہت سا جادو رکھتی تھی اگرچہ یہ کوئی مسلسل یا ہم وار چھت نہیں تھی،یہاں قلعے کے مختلف کمروں کی اونچی نیچی چھتوں کا سلسلہ تھا۔ اسی چھت پر ایک چورس برج بھی تھا جس کے پہلو بہ پہلو 2کو ٹھڑیاں تھیں۔ بادلوں نے آسمان کو ڈھانپ رکھا تھا اور قلعہ التیت کی مٹی سے لپی بے منڈیر کی چھت پر ہواٹھنڈی اور تیز تھی۔میں ادھر ادھر گھوم کر ارد گرد کا منظر دیکھنے لگا لیکن پہاڑی علاقوں کی چھتیں میدانی علاقوں کی چھتوں کی طرح آباد نہیں ہوتیں ان کو محض سردی اور برف سے بچاؤ کے لیے بنایا جاتا ہے۔ قلعے کے سامنے بادلوں سے ڈھکے پہاڑوں کے سائے میں مٹی کی ڈھلوانوں پر زرعی قطعات کے سلسلے تھے جن میں تریک (پا پلر) کے بلند پیڑ تھے۔ پھر ایک دوسرے سے جڑے گھروں کی خاک رنگ چھتیں تھی جن پر ہوا بند کمروں میں روشنی کے لیے شیشے کے تکونے روشن دان تھے۔ وہیں کسی کسی چھت پر شوخ رنگ کیسری خوبانیاں سوکھتی تھیں جیسے انگیٹھی میں کوئلے دہکتے ہوں۔گھروں کے آس پاس اخروٹوں، خوبانیوں اور سیبوں کے درخت تھے۔ اور اسی ہرے بھرے منظر میں کریہ صورت آہنی کھمبے بھی تھے جو ٹیلی فون کمپنیوں نے گا ڑ رکھے تھے اور مزید گاڑ رہی تھیں۔ زمین کے سینے میں گڑتے آہنی جنگل۔ فطرت سے نبردآزما ٹیکنالوجی۔
قلعے کی پچھلی طرف دیوار سے شہتیر اور بالے باہر نکلے ہوئے تھے۔ یہاں سے نیچے جھانکتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔ دریائے ہنزہ جو اب ”عطا آباد جھیل“ کی آغوش سے ہو کر نکلتا ہے۔ دریا پار شاہراہ ِ ریشم جو دریا کےساتھ ساتھ چلتی چین تک جاتی ہے ۔سڑک پار بھوری چٹانوں کا لا محدود سلسلہ۔ دور نیچے گنیش پل کا ایک حصہ جس کے پرلے سرے سے بائیں ہاتھ ایک سڑک سوست کی طرف اور دوسری دائیں ہاتھ نگر کی طرف جاتی ہے۔ یہاں سے دریا کے پار لیکن اس سے بہت اونچانگر کا علاقہ بھی دکھائی دیتا تھا جو اپنی ظاہری صورت میں ہنزہ جیسا ہی ہے لیکن وہاں کے لوگوں کا عقیدہ ہی نہیںمزاج بھی ہنزہ سے مختلف ہے۔
خودکُش حملہ آور:
”آپ کو پتا ہے خود کُش حملہ آوروں کی ابتدا ءہنزہ سے ہوئی تھی؟“جاوید نے ایک اور دلچسپ انکشاف کیا۔
”وہ کیسے؟“ ہم سب قوالوں کی طرح کورس میں بولے۔
”پہلے ہنزہ اور نگر ایک ہی ہوتے تھے لیکن پھر دونوں الگ الگ ہو گئے۔“
”ہاں مجھے کچھ کچھ پتا ہے۔ میں نے اشارہ دیا۔۔۔
مجھے اساسین (assassin) کی کہانیاں یاد آکر رہ گئیں۔ہم سب خا موشی سے دریا پار نگر کی پہاڑی ڈھلوانوں کو گھور رہے تھے۔
التیت کی جس چھت پر کھڑے ہم نگر کی جانب دیکھتے اور جاوید کی باتیں سنتے تھے ابھی اس سے بھی اونچی، واچ ٹاور(watch tower )کی چھت باقی تھی۔ اور پھر ہم اس اونچی منڈیروں والی چھت پر تھے۔ایک چھو ٹے کمرے جتنی کھلی چھت جس پر ایک مصنوعی مارخور بانس کے ڈنڈے دے کر کھڑا کیا گیا تھاجو کہ ایک مار خور سے زیادہ اس کا بھوت لگتا تھا۔سائز کے اعتبار سے بھی یہ چھوٹا سا تھا۔ ایک میمنے جتنا۔ صرف اس کے سینگ کسی قبل از مسیح کے مر حوم مار خور کے اصلی سینگ تھے باقی سارا وجود لکڑی کا تھا۔ اس میں ایک اصل مارخور والی کوئی شوکت اور وجاہت نہیں تھی۔ بے چارے پر کوئی رنگ روغن بھی نہیں تھا۔ سال خوردہ لکڑی کے ٹکڑے اور بس۔ پچھلی بار جب میں یہاں آیا تھا اور قلعہ زیر ِ مرمت اور سیاّ حوں کےلئے بند تھا تو کریم صاحب نے مجھے اس برج کی سیر بھی کروائی تھی، تب سے اب تک قلعے میں بہت کچھ بدل گیا تھا سوائے اس مار خور کے۔اس غریب کے دن نہیں پھرے تھے۔شاید وہ پہلے ہی اتنا پھر چکے تھے کہ اب اور پھرنے کی گنجائش نہیں رہی تھی۔ اس برج کی بلندی سے بھی وہی منظر تھا جو نچلی چھت سے دکھائی دیا تھا۔ ہم نیچے اتر آئے۔ (جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔