بدنام زمانہ جیل ’گوانتاناموبے‘سے سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف پر امریکی کی کہانی۔۔۔سترہویں قسط
اطاعت کرو گے تو زندگی آسان ہو جائے گی:
وفد کے لوگ آتے، ہماری اور کمروں کی تصاویر بناتے، ہمیں ان سے بات کرنے کی اجازت نہ تھی۔ ان میں اکثر امریکی سینیٹرز، صحافی اور سیاح ہوتے۔ اس کیمپ کا یونیفارم سفید رنگ کا تھا۔ زیر جامہ اور بنیان بھی دی جاتی یونیفارم کے تین جوڑے دیئے جاتے۔ جنہیں خود دھونے کی اجازت تھی۔ صابن اور شیمپو بھی دیا جاتا تھا۔ کوئی قیدی کیمپ کے ابتدائی حصے میں منتقل ہو جاتا تو اس کی رہائی کی بات پھیل جاتی۔ ہمیں بھی یقین ہوتا کہ اب اس کو رہا کر دیا جائے گا اور امریکی بھی کہتے کہ کیمپ کے اس حصے میں ایک مہینے سے زیادہ کسی کو قید نہیں رکھا جاتا اور اس کے بعد اس کو رہا کر دیا جاتا ہے۔ مگر بعض اوقات یہ ایک مہینہ برسوں میں تبدیل ہو جاتا۔ امریکیوں کی یہ وعدہ خلافی اور جھوٹ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہ تھی۔
ہر بلاک کے دروازے پر قواعد و ضوابط یا ہدایت نامہ درج ہوتے تھے۔ ان میں لکھا ہوتا تھا کہ ہماری اطاعت کرو گے تو زندگی آسان ہوگی۔ امتیازی سلوک آپ کا حق نہیں مگر اطاعت کرنے والوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر مزید سختیوں کے لیے تیار رہو۔
سولہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
گندمی رنگ والے امریکی فوجی:
گوانتاناموبے میں فوجیوں کے گروپ بدلتے رہتے تھے۔ ان میں اچھے لوگ بھی ہوتے اور برے بھی۔ ہر چھے مہینے بعد فوجی بدل جاتے۔ زیادہ تر فوجی ہماری حالت زار پر افسوس کرتے اور ہماری درد بھری داستانیں سن کر کہتے کہ امریکی حکومتی عہدیدار ہمیں صحیح استعمال نہیں کر رہے اور جھوٹ بول کر ہمیں دھوکہ دے رہیں۔ یہ فوجی وعدہ کرتے تھے کہ وہ متعصب امریکی وحشیوں کے سلوک سے میڈیا کو آگاہ کریں گے۔ ہو سکتا ہے کہ بعد میں انہوں نے ایسا کیا ہو۔ ایک دن ایک بڑے فوجی افسر نے امریکیوں کا وحشی سلوک دیکھا تو رو پڑا اور کہنے لگا کہ ہم ظالم ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ خود کو مجبور اور بے بس بھی کہتا رہا۔
امریکی فوجیوں کی قسمیں:
امریکی فوجیوں کے رنگ کے لحاظ سے تین گروپ تھے۔ گندمی رنگت کے حامل فوجیوں کا سلوک اچھا تھا۔ وہ متعصب نہیں تھے۔ کالی رنگت والے دنبوں کی طرح سست، کم عقل اور غلاموں کی طرح کی طبیعت کے مالک تھے ان پڑھ قسم کے تھے اور بے تحاشا کھانا کھاتے تھے ۔یہ کالے فوجی امریکی گورے فوجیوں کے خلاف بہت شکایتیں کرتے تھے۔ ان کو گالیاں دیتے اور ان کو خود غرض اور ظالم کہتے تھے۔ کالے فوجی جب ہم سے بات کرتے تو انتہائی احتیاط سے کام لیتے تھے ہمیں کوئی چیز دیتے تو ادھر ادھر دیکھ کر چھپ کر دیتے تھے۔ سرخ امریکی فوجی فریبی اور دھوکے باز تھے۔ جھوٹ کے استاد تھے اور کالوں سے خود کو برتر محسوس کرتے تھے۔ تفتیش کار اکثر یہی سرخ امریکی ہوا کرتے تھے جبکہ چوتھے گروپ کے فوجیوں کی تعداد خاصی کم تھی۔ اس گروپ کے فوجیوں کو ’’انڈین‘‘ کہا جاتا تھا جو اصل امریکی ہیں اور امریکا دریافت ہونے سے قبل وہاں آباد تھے۔ ان کی تعلیمی سطح انتہائی کم تھی۔ اکثر فوجی نشہ کرنے والے تھے دیگر امریکی فوجی اپنے ہی ملک کے ان فوجیوں پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔ یہ فوجی بھی دوسرے امریکی فوجیوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے اور ان کو بے رحم و ظالم کہتے تھے وہ ہمیں تسلی دیتے اور مظلوم کی نظر سے دیکھتے۔
گوانتاناموبے میں امریکی فوجیوں کے مختلف گروپ :
گوانتاناموبے میں فوجیوں کے تین گروپ تھے ایک گروپ کا نشان درخت تھا۔ دوسرے کا کبوتر، تیسرے کا ہلال تھا۔ درخت کا نشان رکھنے والا گروپ اچھا سلوک کرنے والے فوجیوں پر متشمل تھا۔ یہ فوجی پروگرام کے مطابق عمل کرتے تھے۔ متعصب نہیں تھے۔ پورا کھانا اور پھل دیتے تھے۔ مریضوں کا خیال رکھتے تھے۔ نیند کے اوقات میں تنگ نہیں کرتے تھے، بے وجہ تلاشی اور تفتیش نہیں کرتے تھے۔ غسل اور چہل قدمی کا پورا وقت دیتے تھے اپنے افسروں کو جھوٹی رپورٹیں نہیں دیتے تھے ہمارے کپڑوں کا بھی خیال رکھتے تھے۔ ہتھکڑیاں اور بیڑیاں احتیاط سے پہناتے تھے ہمارے ساتھی بھی اس گروپ کے فوجیوں کے لیئے کوئی مسئلہ نہیں بناتے تھے اگر کوئی دل برداشتہ ہو کر اس گروپ کے فوجیوں سے سخت لہجے میں بات کرتا تو ہم اسے سمجھاتے کہ یہ اچھے لوگ ہین۔ کبوتر کا نشان رکھنے والے فوجی مختلف مزاج کے تھے۔ شیڈول کے مطابق کام کرتے تھے مگر نیم متعصب تھے ۔کھانے میں نا انصافی سے کام لیتے تھے اور قیدیوں کو بار بار سزائیں دیتے تھے رات کو پریشان کرتے اور پوری نیند نہ لینے دیتے مگر ان میں بھی بعض فوجیوں کا رویہ ٹھیک تھا۔
جس گروپ کا نشان ہلاک تھا اس کے فوجی پرلے درجے کے متعصب تھے ان کا اخلاقی درجہ صفر تھا قیدیوں کو ہمیشہ بھوکا رکھتے تھے۔ ان کو گندے کپڑے دیتے تھے۔ نیند کے وقت بلیوں اور کتوں کی طرح آوازیں نکال کر پریشان کرتے اور قیدیوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرکے ان کو غصہ دلاتے تھے۔ ان میں بعض فوجی ایسے تھے جن میں بعض اوقات انسانوں والی نشانیاں دیکھنے کو مل جاتی تھیں۔ ان کے علاوہ بھی تین چھوٹے گروپ تھے ان میں چابی والا گروپ، ہسپانوی گروپ اور نائن فور نامی گروپ تھا۔ ہسپانوی گروپ کے فوجیوں میں تعصب نہیں تھا ان میں بلا کی انسانی ہمدردی تھی وہ ہم سے کہتے تھے کہ ہمارے آباؤ اجداد مسلمان تھے۔ اسی وجہ سے وہ نماز کا احترام کرتے تھے قرآن کریم کی بے حرمتی نہیں کرتے تھے اور اضافی روٹی کیساتھ ساتھ پانی، شیمپو اور صابن بھی دیتے تھے۔ اس گروپ کے فوجی انتہائی مختصر مدت کے لیے وہاں رہے کیونکہ بعد میں امریکیوں کو شک ہوگیا تھا کہ وہ قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں ۔ مجھے ایک ہسپانوی فوجی نے ہٹائے جانے سے قبل بیس دن قبل کہا تھا کہ امریکی حکام ہمیں یہاں رہنے نہیں دیں گے اور کسی دوسری جگہ منتقل کر دیں گے۔
چابی والے گروپ کے فوجیوں کو انسانیت چھو کر بھی نہیں گزری تھی تعصب ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ہر وقت بداخلاقی کے مظاہرے کرتے رہے اور ہماری مذہبی شعائر کا احترام نہ کرتے تھے۔ اپنے اعلیٰ حکام کو جھوٹی رپورٹیں ارسال کرتے اور قیدیوں کو سخت سزائیں دلواتے۔ قرآن مجید کی بار بار بے حرمتی کرتے، قیدیوں کو مشتعل کرتے ان کو تشدد کا نشانہ بناتے اور رات کے وقت بے جا تلاشی لیتے اور جب قیدی محو خواب ہو جاتے تو فرش کے ساتھ اپنے بھاری بوٹ مار مار کر شور مچاتے۔ تاہم ان میں سے بھی بعض فوجی قیدیوں کی خدمت کرتے نظر آجاتے۔ 94گروپ کے فوجیوں میں شیطانی خصلتیں تھیں۔ وہ تمام کے تمام وحشی اور مغرور تھے۔ قیدیوں کی تکلیف میں خوشی محسوس کرتے تھے اور ان کو جتنی تلیف دے سکتے دیتے تھے۔ ٹیڑھے منہ بات کرتے اور اگر کوئی قیدی تکلیف سے مر بھی رہا ہوتا تو یہ اس کے قریب نہ جاتے۔ ڈاکٹروں کو مریضوں کی رپورٹ بروقت نہ دیتے تھے۔ بغیر کسی وجہ کے سزائیں دیتے تھے۔ ہر بات پر گالی دیتے تھے۔ ان کا رویہ اتنا خراب تھا کہ قیدیوں نے باقاعدہ مزاحمت شروع کر دی جس پر ان فوجیوں کووہاں سے منتقل کر دیا گیا۔ ہمارا شک تھا کہ وہ یہودی تھے اور اسرائیل سے تعلق رکھتے تھے۔
(جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
نائن الیون کے بعد جب امریکی افواج نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کی امن پسندقیادت کوبھی چن چن کر تحقیقات کے نام پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں انہیں جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کیاگیا تاہم ان میں سے اکثر قیدی بے گناہ ثابت ہوئے ۔ملا عبدالسلام ضعیف افغان حکومت کے حاضر سفیر کے طور پر پاکستان میں تعینات تھے لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹراور سفارت کے تمام آداب و اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کو مجبور کرکیااور انکو گرفتارکرکے گوانتانہ موبے لے جاکر جس بیہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد کوروا رکھا اسکو ملاّ ضعیف نے اپنی آپ بیتی میں رقم کرکے مہذب ملکوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیاتھا ۔انکی یہ کہانی جہاں خونچکاں واقعات ، مشاہدات اور صبر آزما آزمائشوں پر مبنی ہے وہاں ملاّ صاحب کی یہ نوحہ کہانی انسانیت اورامریکہ کا دم بھرنے والے مفاد پرستوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔دورحاضر تاریخ میں کسی سفیر کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ حیوانی سلوک اقوام متحدہ کا شرمناک چہرہ بھی بے نقاب کرتا ہے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان مٰیں شائع ہونیوالی تحاریر سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔