شرمیلی بیگم
’’زوہیب آپ مجھے کہاں لے آئے ہیں ؟ آپ کو پتہ بھی ہے کہ مجھے رش سے بہت الجھن ہوتی ہے ۔ دم گھٹنے لگتا ہے میرا لیکن آپ بھی اپنی ضد کے پکے ہیں ، ہمیشہ وہی کرتے ہیں جس سے بندہ آپ کو منع کرے ‘‘ شائزہ شاپنگ مال کے قریب پہنچتے ہی پریشان ہوئی تھی ۔
’’جی مجھے بالکل معلوم ہے کہ آپ رش سے گھبراتی ہیں ، لیکن میری پیاری بیگم تم نجانے کیوں کوئی فرمائش نہیں کرتیں ۔ ایک تم ہو کہ جو بھی چیزیں لا کر دی جائیں تم صبر و شکر کر کے استعمال کر لیتی ہو اور ایک لوگوں کی بیویاں ہوتی ہیں جو شاپنگ کر کر کے نہیں تھکتیں ۔اب یہ کوئی اچھی بات تو نہیں ۔ دراصل میرا دل چاہتا ہے کہ تم روایتی بیویوں کی طرح مجھ سے بھی فرمائشیں کرو ۔ میں انکار کرنے لگوں تو تم بار بار تکرار کرو اور پھر میں تمھیں تنگ کرنے کے بعد وہی چیز دلوا بھی دوں ۔ پر مجھے نہیں لگتا کہ تم میری یہ خواہش پوری کرو گی ۔ ‘‘ زوہیب نے کنکھیوں سے شائزہ کی طرف دیکھتے ہوئے گاڑی کے لاک کھول دئیے ۔
اس شاپنگ مال میں وہ شادی سے پہلے بھی آیا کرتا تھا ۔ ایک تو یہاں سب چیزیں بہت اچھی مل جاتی تھیں دوسرا سٹاف مثالی تھا اور تیسرا یہ شاپنگ مال گھر سے کافی قریب پڑتا تھا جس کی وجہ سے بندہ شدید تھکان کی باوجود یہاں جانے کو ہمہ وقت تیار رہتا تھا ۔
شائزہ شروع ہی سے بازار جانے سے گھبراتی تھی ، کچھ وہ خود بھی شرمیلی تھی اور کچھ اسے گھر والوں نے بھی چھوئی موئی بنا ڈالا تھا کیونکہ بھابھیاں اور بہنیں اسکی شاپنگ کر دیا کرتی تھیں وہ بس آرام سے گھر بیٹھے ہی شاپنگ کا مزا لے لیتی تھی ۔ ہاں گھر داری ، باغبانی اور مطالعہ وغیرہ سے اسے بہت دلچسپی تھی ۔ زوہیب کی کوئی بات اس نے آج تک نہ ٹالی تھی ۔
زوہیب کے گھر والے بھی شائزہ سے بہت خوش تھے صرف ان دونوں میں شاپنگ کے معاملے کو لے کر ہی ہلکی پھلکی نوک جھونک ہوا کرتی تھی ۔ سو اب بھی کم و بیش یہی صورتحال تھی ۔ کپڑوں کی دکانوں سے زوہیب نے اماں ، سدرہ اور شائزہ کے لئے ریڈی میڈ سوٹ خریدے اپنے لئے چند شرٹس اور ساتھ ہی کاسمیٹکس اب باری جوتوں اور گولڈ کی جیولری کی تھی کہ شائزہ تھک گئی ۔
’’زوہیب آپ کی تو شاپنگ ختم ہونے میں نہیں آرہی ، مجھے بھوک بھی لگ رہی ہے ، شاپنگ کا دوسرا نام بس مصیبت ہے ۔ ‘‘ شائزہ کے چہرے سے بے چینی صاف دکھائی دے رہی تھی ۔
’’اچھا تم ایسا کرو پارکنگ میں میرا انتظار کرو میں بل پے کر کے ابھی آجاتا ہوں ۔ ‘‘ شائزہ سر ہلاتے ہوئے جونہی سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی تو آخری دکانوں پر موجود ایک گارمنٹس ڈمی اسکے ٹکرانے کی وجہ سے دھڑام سے زمین پر آگری ۔ ’’اوہ نو یہ کیا ہوگیا ؟ اب خواہ مخواہ یہاں مزید رکنا پڑ جائے گا ‘‘ ابھی وہ ان سوچوں میں گم تھی کہ سیکیورٹی پر مامور دو افراد نے اسے گیٹ پر ہی روک لیا ۔
’’میم آپ پلیز یہاں سے ایسے نہیں جا سکتیں ،مہربانی سے اپنا بیگ چیک کروا دیں ، شاید آپ کچھ چرا کر بھاگی ہیں ۔ آپ کے کپڑوں سے تو بالکل نہیں لگتا کہ آپ اس مال سے خریداری کرنے کے لئے آئی ہیں ۔ ‘‘
’’دیکھئیے آپ کو غلط فہمی ہو رہی ہے ، ایسا کچھ نہیں میرے نیچے آتے ہوئے یہ ڈمی گر گئی ، آپ چاہیں تو سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کر لیں آپ اپنی تسلی وہاں سے کر لیجئیے کیونکہ میں چور نہیں ہوں ۔ ‘‘ شائزہ نے حتمی لہجہ میں کہا ۔
’’میم آپ کی باتوں پر ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں ؟ سی سی ٹی وی فوٹیج تو بعد کی بات ہے آپ بیگ چیک کروا دیں گی تو کیا ہو جائے گا ؟ آپ چیکنگ کے بغیر یہاں سے نہیں جا سکتیں ۔ ‘‘ ایک گارڈ نے کچھ سخت لہجے میں بات کی ۔
’’عجیب مصیبت ہے ، جب میں آپ سے کہہ رہی ہوں کہ میں نے کچھ نہیں چرایا پھر بھی آپ مجھے سے بدستور بدتمیزی کئے جا رہے ہیں ، چھوڑئیے میرا بیگ مجھے جانے دیجئیے ۔ ‘‘ شائزہ نے باہر کی طرف قدم بڑھانے کی کوشش کی ۔
ان کے اردگرد اب لوگ جمع ہونے لگے تھے احساس اہانت کے مارے شائزہ کی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں کہ اچانک اسے عقب سے زوہیب کی اونچی آواز سنائی دی ۔ ’’کیا ہو رہا ہے یہاں پر آپ ان خاتون کا بیگ چیک کرنے پر کیوں اصرار کر رہے ہیں ؟ آپ میرا بیگ چیک کریں یہ شاپرز چیک کریں ، یہ والٹ ، یہ کریڈٹ کارڈز چیک کریں ۔ ‘‘ زوہیب نے غصے سے کہا
’’ نہیں سر ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں آپ تو ہمارے پرانے کسٹمر ہیں زوہیب انڈسٹریز کے مالک ۔ ہم نے آپ کو کیا چیک کرنا ؟ ‘‘ گارڈ اب بہت پریشان ہو گیا تھا
’’اچھا تو یہ کہ آپ کے سامنے سادہ اور عام کپڑوں میں کوئی بھی ہو تو اسکی توہین کرنا آپ پر فرض ہو جاتا ہے ، آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ یہ میری بیگم ہیں ۔ صرف اس لئے کہ انھوں نے اس وقت برانڈڈ ملبوسات اور قیمتی زیورات نہیں پہن رکھے توآپ ان پر رعب جما کر ان کی توہین کر رہے ہیں اور میری اچھی ظاہری حالت سے متاثر ہو رہے ہیں ۔ کیا یہی انسانوں کو جانچنے کا پیمانہ ہے ؟ مینجر شاپنگ مال بھی کائونٹر پر آچکا تھا اسے سیلز مین اور گارڈز کی جانب سے کئے گئے ناروا سلوک کی اطلاع مل چکی تھی ’’سر انھیں معلوم نہیں تھا کہ یہ آپ کی بیگم ہیں ورنہ یہ ایسا کبھی بھی نہ کرتے ْ ‘‘ مینجر گھگھیاتے ہوئے بولا ۔
’’یہ تو اور بھی غلط بات ہے کہ آپ لوگوں کو ان کے کپڑوں سے جج کرتے ہیں اور حقیقت جاننے پر معافی کے طلبگار ہوتے ہیں ۔ آپ کے لئے تو ایک ہزار کی خریداری کرنے والا اور ایک لاکھ خرچ کرنے والا دونوں برابر ہونے چاہئیں ۔ سب کسٹمرز کو مساوی عزت ملنی چاہیے ۔ یہ کوئی توجیہہ یا تاویل نہیں ہے کہ معلوم نہیں تھا اور بعد میں ایسا ہو گیا ویسا ہو گیا ۔ ‘‘ زوہیب نے اپنی آواز مدھم رکھتے ہوئے کہا ۔
’’سر سے معافی مانگو ورنہ تم تینوں کو ابھی ابھی نوکری سے فارغ کیا جا سکتا ہے ، نجانے تم لوگ کب سدھرو گے ۔؟ ‘‘ مینجر بھی غصے میں آ گیا تھا
’’نوکری سے برخاستگی اس مسئلے کا حل نہیں لیکن اچھی پیشہ وارانہ تربیت اس مصیبت سے چھٹکارا دلا سکتی ہے ۔ کسی بھی کمپنی کے امیج کو ورکرز ہی بناتے اور بگاڑتے ہیں ۔ ہمارے ہاں پلازے ، سکول ، ہسپتال سب بن رہے ہیں لیکن وہاں لوگوں کی فنی اور پیشہ وارانہ تربیت نہیں کی جا رہی ۔ آپ لوگوں کو مجھ سے نہیں میری بیگم سے معافی مانگنا ہو گی ، یہ صرف میری بیوی کا معاملہ نہیں ہر عورت کی عزت نفس کا معاملہ ہے ۔ میری مسز کی جگہ اگر آپ کے گھر کی کوئی خاتون ہوتیں تو کیا آپ کا یہی رویہ ہوتا یقینا نہیں ۔اسی طرح خاتون کی جگہ کوئی مرد ہوتا تو کیا وہ آپ کی بات مانتا بلکہ الٹا آپ کا ہی گریبان پکڑ کر آپ کو شرمسار کرنے لگتا ۔ خدارا اس دوہرے معیار سے اس معاشرے کو چھٹکارا دلا دیجئیے ۔ ‘‘ زوہیب نے شائزہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ گارڈز نے شائزہ سے معذرت کرتے ہوئے کہا
’’میم ہمیں معاف کر دیجئیے ، ہمیں آپ کے ساتھ ہرگز ایسا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے تھا ۔‘‘ شائزہ نے اوکے بھائی کہہ کر بات ختم کر دی ۔ آج اسے زوہیب جیسے ہمسفر پر بہت فخر محسوس ہو رہا تھا کہ وہ صحیح معنوں میں مرد تھا جسے اپنے گھر کی خواتین کے ساتھ ساتھ تمام خواتین کی عزت نفس عزیز تھی ۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں اور اس تحریر میں شامل نام فرضی ہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔