میں شکراً  شکراًکہتا ہوا و ہاں سے پیچھے ہٹ آیا،اس کے بعد جو وہاں قیامت برپا ہوئی وہ دیکھنے لائق تھی، انہوں نے میز کے آس پڑوس میں ہی ڈیرے لگا لیے

 میں شکراً  شکراًکہتا ہوا و ہاں سے پیچھے ہٹ آیا،اس کے بعد جو وہاں قیامت برپا ...
 میں شکراً  شکراًکہتا ہوا و ہاں سے پیچھے ہٹ آیا،اس کے بعد جو وہاں قیامت برپا ہوئی وہ دیکھنے لائق تھی، انہوں نے میز کے آس پڑوس میں ہی ڈیرے لگا لیے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:21
جب کھانا لگ گیا تو راویہ نے ایک مخصوص چیخ مار کر سب کو متوجہ کیا اور کھانا لینے کو کہا۔ میزبان مجھے کشاں کشاں کھانے کی میز تک لے گئے۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کھانا اتنی زیادہ مقدار میں تھا کہ اگر اتنے ہی لوگ اور بھی وہاں آ جاتے تب بھی کچھ کمی نہ محسوس ہوتی۔ انگور کے پتوں میں لپٹے ہوئے قیمے کے بنے ہوئے کچھ پکوان، اس کے علاوہ کئی طرح کے کباب، چاول اور دیگر مصری کھانے خوبصورت ترتیب سے میز پر سجائے گئے تھے اور بڑے ہی بھلے لگ رہے تھے۔ ایک چھوٹی سی لڑکی کیمرے سے مسلسل تصویریں بنا رہی تھی۔ جس طرح وہ بار بار کیمرے کا رخ کھانے کی میز کی طرف موڑتی تھی تو اس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ مہمانوں سے زیادہ اسے ذائقہ دار کھانوں کی تصویر کشی کا شوق تھا۔ 
راویہ کے شوہر نے زبردستی دو تین قسم کے کباب اور گوشت کے پارچوں کے علاوہ اور بھی کئی چیزیں میری بڑی سی پلیٹ میں بھر دیں اور وہ ابھی بڑا کچھ کرنے کے موڈ میں تھا۔ میں شکراً  شکراًکہتا ہوا و ہاں سے پیچھے ہٹ آیا۔
اس کے بعد جو وہاں قیامت برپا ہوئی وہ دیکھنے لائق تھی۔ وہ لوگ اس طرح کھانے پر ٹوٹ پڑے تھے جیسے حضرت عیسیٰؑ کے آخری کھانے کی طرح یہ ان کی زندگی کی بھی آخری خوراک تھی اور اس کے فوراً بعد یہ فانی دنیا ختم ہو جانے والی تھی یا خود انہوں نے دنیا سے منھ موڑ لینا تھا۔
پاکستان کی شادیوں میں آئے ہوئے مہمانوں کی طرح انہوں نے بھی میز کے آس پڑوس میں ہی ڈیرے لگا لئے۔و ہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اٹھتے اور کھانوں پر حملہ آور ہوتے، پھر پلیٹیں بھر کے کھاتے ہی چلے جاتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے میز پر پڑے سارے کھانے کا صفایا ہوگیا۔ میں حیرت اور بے یقینی کے عالم میں ان کی بڑی بڑی خالی رکابیوں کو دیکھ رہا تھا جن میں کچھ دیر پہلے مختلف کھانے چھوٹی بڑی پہاڑیوں کی صورت میں موجود تھے، لیکن اب نہیں تھے۔
میرے مصری دوست ریاض میں بھی کھانے کے معاملے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے تھے۔ میں نے زندگی میں پہلی دفعہ مصریوں کو ہی کسی دعوت میں بیک وقت دو پلیٹوں میں کھانا لے جاتے دیکھا۔ اس کی بڑی وجہ غالباً یہی تھی کہ ان کو اللہ پر توکل اور اپنے آپ پر اعتبار ہی نہیں تھا کہ اگلی بار جب وہ میز پر آئیں گے تو ان کو کچھ مل بھی سکے گا یا نہیں۔ ایک اور سوچ بھی غالباً کارفرما تھی کہ جتنا وقت انہوں نے دوسری پلیٹ بھرنے اور لے جانے میں ضائع کرنا ہے تو کیوں نہ ان چند لمحوں کو بھی کھانے کیلئے استعمال کیا جائے۔
مصریوں کی خوراکی عادتیں ماہ رمضان میں انتہائی شاندار اور حیرت انگیز طور پر اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔ وہ افطار سے لے کر اگلی سحری تک مسلسل کھاتے رہتے ہیں۔ ہر وقت جگالی کرتی ہوئی بکریوں کی طرح ان کا منھ چلتا رہتا ہے اور کسی نہ کسی بہانے وہ ہٹ ہٹ کر کھانے پر ٹوٹتے ہیں، اور روزہ بند ہونے تک اپنی کاروائیاں جاری رکھتے ہیں۔
مصری باشندوں خصوصاً خواتین میں موٹاپا اس شدت سے موجود تھا کہ وہ چلتے پھرتے گوشت کے پہاڑ ہی نظر آتی ہیں۔ جب ہم ان سے اس مسئلے پر چھیڑ چھاڑ کرتے تو وہ سارا ملبہ اپنے مخصوص مصری چاولوں پر ڈال دیتے جن کا ذکر پہلے کہیں آچکا ہے۔ تاہم میں نے دفتر میں کام کرنے والے ہر مصری کی دراز خشک میوے، چاکلیٹ اور رنگ برنگی مٹھائیوں اور بسکٹوں سے بھری ہی دیکھی۔ جہاں سے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ مٹھی بھر کے منھ میں ”کچھ“ ڈال لیا کرتے تھے۔ جن کا یہ ذخیرہ ختم ہو جاتا تو وہ کہیں کسی کونے کھدرے سے ایک آدھ چیونگ گم ڈھونڈ کر منھ میں ڈال لیتے اور اسے منہ میں کچلتے اور گھماتے ہوئے مسلسل کھانے کی رسمیں پوری کر لیتے تھے۔ یہ ان کی زندگی کا لازمی جز تھا۔
(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

ادب وثقافت -