اسیں آں سارے پاگل اگے پچھے
پنجاب حکومت نے سموگ پر قابو پانے کے لئے جب سے ریستورانوں کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے، کئی ایک ویٹروں، کچن میں کام کرنے والے شیف حضرات اور دیگر معاونتی عملے کی جان پر بن آئی ہے، کیونکہ اکثر ریستوران اس وقت بہت برے گھاٹے کا شکار ہو چکے ہیں اور ان کے لئے اوور ہیڈ چارجز برداشت کرنا ممکن نہیں رہا۔حکومت پنجاب کا پہلا نوٹیفیکیشن تھا کہ ریستوران سمیت کھانے پینے کے تمام پوائنٹس کو چار بجے شام بند کردیا جائے اور صرف ٹیک اوے کی سہولت باقی رہے گی، پھر نوٹیفیکیشن آیا کہ چار کی بجائے آٹھ بجے بند کردیئے جائیں اور اب تیسرا نوٹیفیکیشن میدان عمل میں موجود ہے کہ رات دس بجے بند کردیئے جائیں جبکہ ٹیک اوے کی سہولت جاری رہے گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر ٹیک اوے کے لئے ریستوران کے چولھے جلتے رہیں گے اور دھواں چھوڑتے رہیں گے تو لوگوں کوریستورانوں کا رخ کرنے سے روکنے کا کیا فائدہ؟ اس سے تو کہیں بہتر ہے کہ ریستورانوں کو روٹین کے مطابق کام کرنے دیا جائے کیونکہ ان کے چولھے تو ہر حال میں جلتے رہیں گے۔
ریستوران مالکان کا کہنا ہے کہ یہ روٹین کی بات ہے کہ لوگ رات کا کھانا تاخیر سے کھاتے ہیں۔ اول تو وہ ریستوران پر پہنچتے ہی رات نو بجے ہیں، اس کے بعد ایک گھنٹہ تک اپنے دوستوں، عزیزوں اور رشتہ داروں کا انتظار کرتے رہتے ہیں جس کے بعد باقاعدہ کھانا کھایاجاتا ہے۔ اب اگر ریستوران رات دس بجے بند کرنے کا آرڈر ہوگا تو ریستوران خاک چلے گا اور جب چلے گا نہیں تو اوورہیڈز کہاں سے پورے ہوں گے اور ملازمین کی تنخواہیں کہاں سے نکلیں گی اور ان کی نوکریاں کیونکر جاری رہ سکیں گی؟
اس سے بھی بڑا مذاق یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور مقامی پولیس صرف ان ریستورانوں کے درپے ہیں جو مین روڈ پر واقع ہیں۔ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی جو مین روڈ سے ہٹ کر ہیں۔ دوسرا بڑا مذاق یہ ہے کہ مین روڈ پر بھی وہ ریستوران دھکے سے کھلے رہتے ہیں جن کی اوپر پہنچ ہے یا جو انتظامیہ کے کارندوں کو خوش رکھتے ہیں۔تیسرا بڑا مذاق یہ ہے کہ ریستوران بند کرنے کی پابندی صرف لاہور شہر کی حد تک ہے، باقی صوبے میں کھلی چھوٹ ہے۔ حکومت پنجاب کو سموگ کے نام پر ایسے بڑے بڑے مذاق بند کرنا چاہئیں اور ریستورانوں پر کام کرنے والے ملازمین کی نوکریوں کو مقدم جاننا چاہئے وگرنہ وہ اور ان کے گھر والے فاقوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔
دوسری جانب سیاسی محاذ پر پی ٹی آئی خود اپنے ہی الزامات کی زد میں ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو عمران خان کی فائنل کال کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کا شو ختم ہو چکا ہے۔ پاکستان کے عوام نے تو پہلے ہی اسے سیریس نہیں لیا تھا، اب اسٹیبلشمنٹ نے بھی اس سے ہاتھ اٹھالیا ہے۔ البتہ الیکٹرانک میڈیا پر جس تواتر کے ساتھ ان کا تذکرہ ہوتا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اینکر پرسن برما کے جنگلوں میں چھپے ہوئے وہ سپاہی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ دنیا میں ابھی بھی دوسری عالمی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ انہیں یہ بات سمجھ نہیں آرہی ہے کہ اگر عمران خان دوبارہ برسراقتدار آتے ہیں توعدلیہ اور فوج سمیت ہر ادارہ تباہ ہو جائے گا، تقسیم تو پہلے ہی ہو چکے ہیں۔ ذرا اندازہ کیجئے کہ اگر اس وقت جنرل فیض حمید فوجی سربراہ ہوتے اور اعلیٰ عدلیہ میں وہ معزز جج صاحبان حکم چلا رہے ہوتے، جو کہ نہیں چلا رہے ہیں، تو ملک کی کیا صورت حال ہوتی؟ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ عمران خان کو دوبارہ برسراقتدار لا کر پرانا راگ چھیڑ لیا جائے۔ ایسا نہیں ہوگا خواہ اس کے لئے
پاکستان کو امریکہ سے ہی کیوں نہ ٹکر لینا پڑ جائے۔ہمیں تو رہ رہ کر ارشد شریف کا خیال آتا ہے کہ اگر واقعی وہ کسی ایسی سازش کا شکار ہو گیا کہ جس کے نتیجے میں ملک میں پاکستانی عوام کو فوج کے خلاف کھڑا کردینا تھا تو وہ تو واقعی تاریک راہوں میں مارا گیا۔
جب تک 24نومبر کا مارچ نہیں ہوا تھا، بتایا جا رہا تھا کہ وہ عمران خان کی جانب سے دی جانے والی فائنل کال ہے اور اب جبکہ وہ مارچ بری طرح ناکام ہو چکا ہے، علیمہ خان بتا رہی ہیں کہ عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایک آخری کارڈ ہے جسے وہ اپنی بہنوں سے بھی شیئر نہیں کریں گے۔ لگتا ہے کہ پی ٹی آئی فائنل کال سے آخری کارڈ کے بیچ میں ہی کہیں گم ہو جائے گی۔ ادھر عوام کا حال یہ ہے کہ پنجاب سے بھلے لوگ نہیں نکلے لیکن وہ اپنا غصہ اگلے الیکشن میں بیلٹ باکس میں نکالیں گے۔ ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ حالیہ عام انتخابات میں بھی تو عوام نے غصہ ہی نکالا تھا، مگرکیا نتیجہ نکلا؟واضح رہے کہ ایسا پاکستان میں پہلی دفعہ نہیں ہوا، 2018ء میں بھی عوام نے غصہ نکالا تھا مگر عمران خان کو اقتدار دے دیا گیا تھا۔ اگر ایسا تب ٹھیک تھا تو 2024ء میں کیسے غلط ہو گیا۔پی ٹی آئی والے بھی سوچنے سمجھنے صلاحیت کھو چکے ہیں، پہلے کہتے تھے کہ نومبر میں سب کچھ بدل جائے گا، مگر سوائے ٹرمپ کی جیت کے کچھ بھی نہ بدلا، اب کہتے ہیں کہ 20جنوری کے بعد سب کچھ بدل جائے گا۔ تب بھی ایسا نہ ہوا تو کوئی اور راگ الاپنا شروع کردیں گے۔ پی ٹی آئی کے ووٹروں سپورٹروں کا صحیح معنوں میں کچھ ایسا حال ہو چکا ہے کہ
میں پاگل اوہدے پچھے اوہ پاگل ہوردے پچھے
اسیں آں سارے پاگل اگے پچھے