پیٹرولیم انڈسٹری کی ترقی کے لئے حکومت کا’’ ادھورا کام‘‘
پٹرولیم مصنوعات کے میدان میں پیش رفت کے لئے موجودہ حکومت نے بڑا قدم اٹھایا ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا ایک اہم اجلاس ہواہے جس میں حکومت نے تیل کی تلاش میں آنیوالی کمپنیوں کو اضافی مراعات اور ٹیکس میں چھوٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اجلاس میں آف شور ایکسپلوریشن کمپنیز کو کسٹم ڈیوٹی اور سیلزٹیکس کی چھوٹ دینے کی منظوری دی گئی اور یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ تمام آلات کی درآمدات اور برآمدات پر کوئی کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس بھی نہیں لیا جائے گا۔ کابینہ کو بریفنگ دی گئی کہ ایگزون موبل، ای این آئی لمیٹڈ کیکرا 1میں الٹرا ڈیپ ویل ڈرلنگ کے لئے تیار ہیں اورڈرلنگ آپریشن رواں ماہ شروع کردیا جائے گا۔
واضح رہے کہ سی پیک کے تحت چین پاکستان میں ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ایشیاء کی سب سے بڑی سٹیٹ آف آرٹ آئل ریفائنری بھی بنا رہا ہے جہاں روزانہ ایک لاکھ بیرل خام تیل تیار ہوگا ۔جس سے ملک میں تیل کو ذخیرہ کرنے کی استعداد پینتالیس روز تک بڑھ جانے کااعلان بھی کیا جاچکا ہے ۔
اگرچہ یہ بڑی خوش آئیند بات ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت سرمایہ کاری اور ملک میں پیٹرولیم انڈسٹری کو وسعت دینے میں مخلصانہ کوششیں کررہی ہے تاہم تشویش ناک بات یہ بھی ہے کہ حکومت پٹرولیم ذخائر کی دریافت کے لئے غیر ملکی کمپنیوں کو تو ’’ریلیف‘‘ دینے پر آمادہ ہوگئی ہے مگر اندرون ملک پیٹرولم انڈسٹری کو درپیش مسائل کو حل کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے رہی ۔ آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ اس وقت پیٹرولیم کا شعبہ سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے اداروں میں نمایاں حیثیت اختیار کرچکا ہے لیکن بدلے میں پیٹرولیم مصنوعات سے وابستہ اداروں خاص طور پر آئل مارکیٹنگ کمپنیوں(او ایم سیز) کو درپیش آنے والے مسائل سے نکالنا بھی حکومت اور وزارت پیٹرولیم کی ذمہ داری ہے ۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے پیٹرولیم کے میدان میں خاص طور پر ایسے حالات میں کہ جب ملک میں انرجی کرائسز موجود ہے اور ملک کی اسّی فیصد کھپت پوری کرنے کے لئے پیٹرولیم مصنوعات امپورٹ کی جاتی ہیں تو اس دباؤ سے نکلنے کے لئے انہیں بیرونی سرمایہ داروں اور کمپنیوں کے علاوہ ملک کے اندر موجود سالہا سال سے خدمات انجام دینے والی کمپنیوں پر بھی توجہ دینی چاہئے جو سرمایہ خرچ کرکے پیٹرولیم مصنو عات سے ملک کی ضروریات پوری کرتیں اور کسی قسم کا بحران پیدا ہونے نہیں دے رہیں حالانکہ انہیں پچھلے چند ماہ کے دوران اوگرا نے اربوں روپے کا ٹیکا بھی لگا رکھا ہے۔ اوگرا نے طے شدہ ٹیرف کی بجائے ڈالر کی بڑھتی قیمتوں کے پیش نظر غیر اصولی طور پر ان کمپنیوں سے اضافی رقوم حاصل کی ہیں ۔اس وقت پاکستان میں پی ایس او کے علاوہ دس دیگر بڑی کمپنیاں اپنے جہازوں سے تیل لارہی ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ جس روز تیل کی قیمت کا تعین کیا جاتا ہے ،اس سے اگلے روز ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوجائے تو اربوں روپے کا نقصان آئل مارکیٹنگ کمپنی (OMC) کو اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ کمپنیوں پر ڈالر کی نئی قیمت کا اطلاق کردیاجاتا ہے ،جوای سی سی کے فیصلے برعکس ہے۔یہ ایسا مسئلہ ہے جس سے ملک میں او ایم سیز کا مورال ڈاؤن ہوا ہے اور وہ سوچ میں پڑگئی ہیں کہ کیا ایسے حالات میں منافع بخش کاروبار کیا جاسکتا ہے یا خسارے کی بنیاد پر پیٹرولیم مصنوعات فروخت کرکے وہ زندہ رہ سکیں گی۔
کاروباری دنیا منافع پر استوار ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں اوگرا نے تیل ساز اداروں کو کسی ساھوکار کی طرح ڈیل کرتے ہوئے انہیں غیر مستحکم روپے اورڈالرکے کھیل میں جکڑ لیا ہے ۔وزیر اعظم پاکستان کو چاہئے کہ اس معاملہ کی تحقیقات کرائیں اور اوگرا سے پوچھیں کہ وہ او ایم سیز سے کن اصولوں کے تحت ادائیگیاں وصول کررہی ہیں اور انہیں ریلیف کیوں نہیں دیا جارہا ہے۔*
۔
یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے