دس ٹھیک گیندیں، اگلی ٹیم آؤٹ

   دس ٹھیک گیندیں، اگلی ٹیم آؤٹ
    دس ٹھیک گیندیں، اگلی ٹیم آؤٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تاریخ کے امتحان میں سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے اسباب کی طرح اگر آپ آج کے کالم کی ہنگامی وجہ پوچھیں تو کہوں گا کہ ایک سرکاری کالج میں تدریسی معاون کا عہدہ حاصل کرنے میں ایک عزیزہ کی ناکامی۔ بظاہر یہ ایسی خبر نہیں جس پر پوڈکاسٹنگ شروع ہو جائے، یعنی وہی یک رُکنی نشریات جن میں یو ٹیوبر  یا ٹِک ٹاکر خود بولنگ کرکے اپنی ہی گیند پر چوکا لگا دیتا ہے۔ البتہ تھرڈ امپائر کے مطابق، سیلکشن بورڈ کے ہاتھ اُس مارکنگ اسکیم نے باندھ رکھے تھے جس نے امیدوار کی خوشگوار کارکردگی کے مقابلے میں اعلی تر ڈگریوں کا پلڑا بھاری کر دیا۔ عارضی ملازمت کے لیے طلائی تمغوں کی قطاریں دیکھ کر بھی شرمندگی ہوئی کہ آج انٹرویو لینے والے جب خود گریڈ سترہ کے لیکچرر بنے تو انگریزی میں تھرڈ ڈویژن والوں کو بھی نوکری مل جایا کرتی تھی۔

 یہاں یہ دلیل دی جائے گی کہ چلو، تمہارے زمانے میں پڑھے لکھوں تعداد کم تھی اور پرانی اصطلاح میں سولہ جماعتیں پڑھے ہوئے تو نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔ بات صحیح ہے مگر امیدواروں کے چناؤ کا کوئی نہ کوئی پیمانہ تو ہمیشہ ہوا ہی کرتا ہے۔ ’بجنگ آمد‘ کے مصنف کرنل محمد خاں نے جنگ ِ عظیم کے دوران اپنے کمیشن کا حال بتاتے ہوئے ایک بزرگ نما بریگیڈئر اور دو تین ادھیڑ عمر کرنیلوں کا ذکر کیا تھا جنہوں نے انٹرویو میں ہلکے پھلکے سوال کیے اور امیدوار کے فوج کے ساتھ خاندانی روابط کی بابت پوچھا۔ اُس وقت تک وہ بلا نازل نہیں ہوئی تھی جسے آئی ایس ایس بی کہتے ہیں۔ چنانچہ مصنف کے الفاظ میں، ہم نے شجرہء نسب کو کھینچ تان کر اِتنے صوبیدار چچاؤں اور کپتان چچا زادوں کا احاطہ کر لیا کہ بورڈ کو مطمئن کر کے بھی کچھ باقی بچ گئے۔ 

 مجھے البتہ اپنے کزن اور منفرد صحافی خالد حسن کا قصہ زیادہ پُرلطف لگتا ہے۔ ایک مرحلے پر انہوں نے خدا جانے کس جذبے کے تحت انکم ٹیکس سروس کے امتحان میں شرکت کی اور سرکار ِ پاکستان کی ملازمت سے منسلک ہو گئے۔ حیرت کا جواز خالدحسن کا یہ اعتراف ہے کہ اُنہیں نہ تو انکم ٹیکس کے کام میں کوئی دلچسپی تھی اور نہ عام تاثر کے برعکس پیسہ بنانے کا شوق۔ سروس میں اُن کی شمولیت کو اس لیے بھی محض اتفاق سمجھیں کہ دوران انٹرویو انہوں نے بعض سوالوں کے ایسے جواب دیے جو بالکل ہی طبع زاد تھے۔ بورڈ نے یہ سوچ کر مشکل الفاظ کے معانی پوچھنے پر اصرار کیا کہ آپ چار، ساڑھے چار سال سے مرے کالج سیالکوٹ، اسلامیہ کالج لاہور، لارنس کالج گھوڑا گلی اور کیڈٹ کالج حسن ابدال میں انگلش پڑھا رہے ہیں۔

 دلچسپ صورتحال ’ہاوٗلر‘ کے لفظ پر پیدا ہوئی۔ بھانت بھانت کے چینل کھُل جانے سے اب اس اصطلاح کا مفہوم بہت حد تک آشکار ہو چکا ہے، مگر 1958ء کے خالد حسن کے لیے یہ ایک نیا لفظ تھا۔ انہوں نے صاف گوئی سے کہا کہ کبھی پڑھا یا سنا نہیں۔ بورڈ کے رکن اور انگریزی ادب کے نامور استاد پروفیسر سراج الدین شاید اُس دن چسکا لینے کے موڈ میں تھے۔ کہنے لگے ’ذہن پر زور ڈالو اور کوشش کرو‘۔ اب ہمارے امیدوار کا جواب ملاحظہ فرمائیے: Howler means one who howls 

 پھر ایم اے میں متوقع سطح سے کمتر درجہ میں کامیابی کی یہ وضاحت کرنا کہ پنجاب میں فرسٹ اور سیکنڈ کلاس ڈگریاں لاہور کے تین تعلیمی اداروں میں بانٹی جاتی ہیں جبکہ مَیں ایک دور افتادہ کالج کا طالب علم ہونے کے سبب نمایاں کامیابی حاصل نہ کر سکا۔ لطف کی بات یہ کہ سراج صاحب کا نام نامی انہی میں سے ایک درسگاہ کے ساتھ لازم و ملزوم تصور کیا جاتا رہا۔ پھر بھی سلیکشن بورڈ کی مارکنگ اسکیم میں کچھ تو تھا کہ خالد حسن کا نام سرفہرست پایا گیا۔ ایک دفعہ انہوں نے میرے سامنے یہ راز کھولا کہ میرٹ لسٹ نیچے سے اوپر کی طرف دیکھنی شروع کی تھی اور وسط تک پہنچ کر سمجھے کہ ’مَیں وہی حرف غلط ہوں کہ مٹایا جاؤں‘۔ آٹھ سال کے اندر خالد ’پاکستان ٹائمز‘ لاہور سے وابستہ ہو چکے تھے۔

 خود میری عملی زندگی کا آغاز ایک کلاسیفائیڈ اشتہار پڑھ کر اسلام آباد میں ایک حادثاتی انٹرویو سے ہوا۔ نئی نکور ائر کنڈیشنڈ سفارتی عمارت، افسری ماتحتی نہ ہونے کے برابر اور ملازمت مِل جانے پہ ہر ہفتے ایمبسڈر صاحب کی گھریلو پارٹیوں میں ’ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے‘۔ کام تھا ویزے کے درخواست گزاروں کی امیگریشن افسر سے با ترجمہ ملاقات جن میں اکثریت ایسی نو بیاہتا دلہنوں کی تھی جنہیں اُن کے شوہر نے برطانیہ پہنچنے کے لیے سپانسر لیٹر بھیج دیا ہوتا۔ بطور امیدوار مجھے پانچ اضافی انکریمنٹس اِس لیے پیش کر دی گئیں کہ تحریری ٹیسٹ میں ٹرانسلیشن کا اقتباس تھا ہی آسان۔ ’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں احمد نامی ایک لڑکا رہتا تھا‘۔ مَیں نے لفظی اور بامحاورہ ترجمہ کے الگ الگ عنوانات قائم کر کے انہی کے تحت دو انگریزی متن لکھے جس سے ممتحن ’تھلے‘ لگا۔

 کالج ٹیچر بنتے وقت بھی پبلک سروس کمیشن کے سامنے کوئی مارکنگ اسکیم تو بہرحال ہو گی۔ لیکن سی سی ٹی وی کی غیر موجودگی میں فدوی کو اِس حرکت کا کوئی نقصان نہ پہنچا کہ وہ ویٹنگ روم کے ہرے ہرے صوفوں پر بیٹھ کر انٹرویو کا انتظار کرنے کی بجائے کمیشن کے بیرونی احاطے کی دیوار پر چڑھ کر باقاعدہ چٹکی مار اسٹائل میں سگریٹ پیتا رہا۔ میرے دوست عمر فاروق کہا کرتے ہیں کہ اُس دن پہلی نظر میں تم مجھے بہت شوہدے آدمی لگے تھے۔ خیر، کمیشن کی رائے اِس سے مختلف نکلی اور دور افتادہ کالج کا یہ طالب علم پنجاب میں دوسرے نمبرپر رہا۔ تینوں سبجیکٹ اسپیشلسٹ میرے دائرہ اثر سے باہر مگر نیک نام استاد تھے۔ کام تو کمیشن کے چیئرمین نے بنایا جنہیں پتا چل گیا تھا کہ مَیں شعر کہتا ہوں۔ اُس کے بعد اللہ دے اور بندہ لے۔ 

 بی بی سی کے درخواست فارم پر اِس بچگانہ دعوے نے مارکنگ اسکیم کے ڈھانچہ کو ہلایا ہوگا کہ مَیں ہی وہ شخص ہوں جس کی آپ کو تلاش رہی۔ جی ہاں، یہی الفاظ تھے، مگر بیالیس سال گزر جانے پر اِس انکشاف پہ اخفائے راز کی خلاف ورزی کا اطلاق نہیں ہوتا کہ اردو سروس کے ڈیوڈ پیج نے، جو پاکستان کے دورہ پہ آنکلے تھے، میرا انٹرویو تحریری امتحان سے پہلے لیا۔ کیا آدمی ہے جس نے نہ صرف مجھے فلیش مین، راولپنڈی کے کمرے میں پائپ نوشی کی اجازت دیے رکھی بلکہ گپ شپ میں اتنے محو ہوئے کہ پون گھنٹہ کی طے شدہ ملاقات پونے دو گھنٹے تک چلتی رہی۔ انٹرویو میں ’ٹیوا‘ لگا کر مَیں نے افغانستان میں موثر سوویت قبضہ نہ ہونے کی پیشگوئی کی تھی، جس سے افسر نے یہ مراد لی ہوگی کہ امیدوار واقعی کرنٹ افیئرز کا ماہر ہے۔

 اب پاک انگلینڈ کرکٹ سیریز شروع ہونے پر یہ کالم نگار شیخ سعد یؒ کی طرح زندگی کے تجربات کا نچوڑ پیش کرنا چاہتا ہے۔ یہی کہ ہر روز کے ٹونٹی ٹونٹی سے ہٹ کر شائقین کی آنکھوں سے اوجھل کسی ملتان سٹیڈیم میں ہمارے ہونے، نہ ہونے کا ٹیسٹ بھی کھیلا جا تا ہے۔ سرکاری طور پر بزرگ کہلانے والے والے کی نظر اب اِس پر بھی ہے کہ یہ ٹیسٹ میچ ڈرا ہو جائے گا یا ہمیں اننگز ڈیفیٹ ہونے والی ہے۔ کبھی کبھی اِس فائنل انٹرویو سے ڈرتا ڈرتا ہوں کہ ’پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے۔‘ پھر اچانک کوئی غیبی آواز سنائی دینے لگتی ہے کہ بھئی، تمہاری دس گیندیں ٹھیک پڑ جائیں تو اگلی ساری ٹیم کو آؤٹ سمجھو۔ 

مزید :

رائے -کالم -