پی ٹی آئی کا جنازہ تیار ہے
تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں بھاری بھرکم جلسوں کے بعد پنجاب میں اپنی مقبولیت کی چھاپ دکھانے کا موقع دیا گیا تو راولپنڈی کی حد تک تو بات ٹھیک رہی مگر جونہی یہ سرکس لاہور پہنچا تو ساری پھوں پھاں ہوا ہو گئی اور اب اسلام آباد ڈی چوک پر دھرنے کی آڑ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کو خراب کرنے کے لئے جس طرح ہاتھ پاؤں ما ر رہی ہے، اسے دیکھ کر ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی آتا ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی ڈیوٹی ہی لگ گئی ہے کہ کسی طرح پاکستان میں چینی سرمایہ کاری نہ ہونے دی جائے۔ 2014ء میں بھی عمران خان چینی صدر کا دورہ معطل کروانے میں کامیاب رہے تھے اور اب ان کی جماعت اس مشن پر نکل کھڑی ہوئی ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رنگ میں بھنگ ڈالی جائے،مگر دوسری جانب حکومت نے بھی اس کامیابی کو اپنا مقدر بنانے کی ٹھان لی ہے اور جس طرف سے بھی ایسی کوئی کوشش ہو رہی ہے،ہر اس طرف اپنی ریاستی رِٹ کا گھوڑا دوڑادیا ہے۔چنانچہ اب پی ٹی آئی کے کارکنوں کے لئے اس طرح سے کھل کھیلنے کا موقع نہیں ہوگا جو اس سے قبل وہ 9مئی کو انجوائے کر چکے ہیں۔
تحریک انصاف کو یہ بھی سمجھ آرہی ہے کہ اگر وہ ناکام ہو گئی اور پنجاب اس کے ساتھ ایسی ریاست مخالف سرگرمیوں کا حصہ نہ بنا تو سیاسی طور پر ایک ایسا خلا پیدا ہو جائے گا جسے دوبارہ سے بلاول بھٹو بھر سکتے ہیں۔ چنانچہ بلاول بھٹو بڑے صبروتحمل سے اپنی سیاسی ساکھ کی بحالی کی جدوجہد کر رہے ہیں اور اس وقت ایک آئینی ترمیم کے ذریعے میثاق جمہوریت کے تحت ایک آئینی عدالت کے قیام کے لئے متحرک ہیں تاکہ سپریم کورٹ سیاسی معاملات میں الجھے رہنے کی بجائے معاشرتی مسائل کے حل کے لئے مقدمات کی اپیلوں کو بروقت ڈسپوز آف کرے۔ اگر بلاول بھٹو اس مشن میں کامیاب رہتے ہیں تو وہ اپنے نانا کی طرح ملک کی آئینی تاریخ میں ایک اور سنگ میل عبور کرلیں گے اور اس کے بعد ان کے لئے پنجاب میں اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کرنا آسان ہو جا ئے گا۔
جہاں تک نون لیگ کا تعلق ہے تو مریم نواز کی جانب سے پہلے روٹی کی قیمت میں کمی اور اب بجلی کی قیمتوں میں ریلیف ایسے اقدامات نے انہیں عوام میں مقبول بنایا ہے اور جس تندہی کے ساتھ وہ عوامی منصوبے شروع کئے ہوئے ہیں اور انہیں اپنے والد میاں نواز شریف سمیت پوری پارٹی کی سپورٹ حاصل ہے، اسے دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب میں نون لیگ کا کلہ مضبوط رہے گا اور مخالف ووٹ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی میں بٹا رہے گا، اس کے ساتھ ساتھ جس طرح مہنگائی میں کمی کا رجحان ہے، جس کے سبب اسٹیٹ بینک شرح سود میں بتدریج کمی کرتا جا رہا ہے، امید کی جا رہی ہے کہ اگر حکومت آئندہ دنوں میں بجلی کی قیمتوں میں کمی کرنے میں کامیاب ہو گئی تو ملک میں معاشی سرگرمیاں پھر سے بحال ہو جائیں گی جس سے روزگار کے وسیع ذرائع پیدا ہوں گے اور عوام میں دوبارہ سے خوشحالی کے پھول کھلنا شروع ہو جائیں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا تحریک انصاف اپنی احتجاجی تحریک کو کوئی رخ دے سکتی ہے کیونکہ ہم نے دیکھاہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے صدارتی آرڈیننس کے آنے کے بعد بھی پی ٹی آئی کے ایڈووکیٹ حامد خان نے جس تحریک کا نعرہ لگایا تھا،اس کے کچھ بھی امکانات ابھی تک پیدا نہیں ہوئے ہیں، شائد اس کا ایک بڑا سبب یہ ہو کہ اسٹیبلشمنٹ اس وقت ایسی کسی تحریک کو سپورٹ کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، ایسا ہے تو پھر بلاول بھٹو کے لئے آئینی عدالت کے قیام کے لئے آئین میں ترمیم آسان ہو جائے گی۔
دیکھا جائے تو سوشل میڈیا پر حکومتی کنٹرول نے پی ٹی آئی کو جنرل فیض حمید کی گرفتاری سے بڑھ کر نقصان پہنچایا ہے، کیونکہ اب پی ٹی آئی کے لئے جھوٹے ڈرامے رچانا آسان نہیں رہا ہے،اسی طرح الیکٹرانک میڈیا بھی اس طرح کھل کر پی ٹی آئی احتجاج کی کوریج نہیں کر رہا ہے جس طرح کا ماحول 2014ء میں تھاکہ الیکٹرانک میڈیا وہ چیزیں بھی رپورٹ کر رہا تھا جس کا گراؤنڈ پر وجود تک نہ تھا۔ اب تو پی ٹی آئی کی سرگرمیوں کو اسی طرح کی کوریج ملتی ہے جس طرح تحریک لبیک پاکستان کے جلسے کو ملتی ہے کہ لمحے بھر کے لئے ایک کیمرہ شاٹ دکھایا اور بس!... یہ تینوں عوامل پی ٹی آئی کے لئے سوہان روح بن گئے ہیں اور اب اس کے لئے عوامی اذہان کو captureکرنا ممکن نہیں رہا ۔
کوشش کے باوجود بھی پی ٹی آئی پنجاب سے کوئی تحریک بپا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے، خاص طور پر لاہور میں جس طرح عوام نے سردمہری کا مظاہرہ کیا ہے، اس کے بعد پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ کہ وہ پاکستان کی سب سے مقبول جماعت ہے، ٹھس ہوگیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے لئے نون لیگ، پیپلز پارٹی، مولانا فضل الرحمٰن، ایم کیو ایم اور اب حتیٰ کہ جماعت اسلامی کے امیر بھی جس طرح سے اکٹھے ہو گئے ہیں، اس سے بھی پی ٹی آئی کے لئے سیاسی سپیس حاصل کئے رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ابھی تک پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ پر وہ دباؤ ڈالنے میں ناکام رہی ہے، جس کی توقع کی جارہی تھی۔ حالات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کا جنازہ تیار پڑا ہے اور اب امام صاحب کا انتظار ہے کہ وہ آئیں اور فاتحہ پڑھنے کا عمل شروع ہو۔ عمران خان کی ہٹ دھرمی ان کی سیاسی موت واقع ہوئی ہے۔