جنگ ستمبر 65ء اور آج کے حالات!
ستمبر ہر سال بارہ ماہ کے بعد آتا ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں، ہمارے سیاسی حضرات ستمبر کو ستمگر کہتے ہیں، لیکن میرے لئے یہ مہینہ یادوں کا جھرمٹ لئے آتا ہے۔ان دنوں میرا ملک اور اس ملک کے عوام جن پریشانیوں سے دوچار ہیں تو مجھے کچھ زیادہ ہی بوجھ محسوس ہو رہا ہے اور ستمبر65کے حالات کی تصویرکسی فلم یا ویڈیوز کی صورت میں آنکھوں کے سامنے چلنا شروع ہو جاتی ہے اور ایسا ہی اب بھی ہوا ہے۔ میں یہ کالم 5ستمبر کو لکھ رہا ہوں اور دعاگو ہوں کہ 6ستمبر 1965ء کے بعد میرے ملک میں جو جذبہ اور منظر پیدا ہوا وہ آج پھر سے آ جائے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب اس معرکہ سے بھی زیادہ ضرورت ہے کہ قوم متحد ہو۔ بھارت کی طرف سے لاہور پر اچانک یلغار کے بعد میرے پاکستان میں جو جذبہ ابھرا اس کی مثال نہ تو اس سے پہلے کبھی تھی اور نہ بعد میں ہوئی ہے۔ یکجہتی اور جذبے کا جو عالم میں نے دیکھا اور جس جوش کے ساتھ رپورٹنگ کی وہ آج تک پیدا نہیں ہو سکا۔ قارئین! یہ بات اب بڑی عجیب اور غلط لگتی ہے کہ ستمبر کی جنگ نے پورے ملک میں جرائم صفر کر دیا تھا، کسی کا کسی سے جھگڑا نہیں تھا، نادانی اور ناتجربہ کاری کے باعث پرجوش عوام واہگہ کی سرحد کی طرف رواں تھے، ان کو ہمارے سمیت بڑی مشکل سے شالیمار باغ اور باغبانپورہ تک روکا گیا، میرے اخبار امروز کا فوٹوگرافر یعقوب بھٹی (مرحوم) کو داروغہ والا میں پکڑا گیا اور اسے واپس کیا گیا، اس کے بعد ہم جنگ بندی تک شہر میں رپورٹنگ کرتے رہے اور شہری دفاع کی خدمات بھی ادا کیں اور یوں بلیک آؤٹ اور اس میں ہونے والے واقعات بھی خبر کا ذریعہ بنتے رہے۔
میں نے ستمبر 65ء کے جس جذبے کی بات کی ہے، اس میں ہمارے سیاسی قائدین کا کردار بھی بہت اہم اور قومی جذبے سے سرشار تھا، اسی سال اس کے وقت کے صدر ایوب خان نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ مادرملت فاطمہ جناح کو اپنے تیار کردہ طریق انتخاب کے تحت دھاندلی سے شکست دی تھی، وہ متحدہ اپوزیشن کی متفقہ امیدوار تھیں اور کل جماعتی اتحاد نے اس پر سخت احتجاج کیا تھا۔ ایوب خان سے تعلقات کشیدہ تھے لیکن تب نہ ضد تھی نہ کوئی انا کا مسئلہ، جب دشمن ملک پر چڑھ آیا تو ساری اپوزیشن نوابزادہ نصراللہ (مرحوم) کی تجویز پر چل کر ایوب خان کے پاس گئی اور تمام تر انتخابی تحفظات کو بالاء طاق رکھ کر اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا اور پھر چشم فلک نے جہاں ہماری مسلح افراد کی جرائت، بہادری اور جذبہ شہادت کو دیکھا وہاں پاکستانیوں کی محبت کے مظاہرے بھی ہوئے جدھر سے فوجی گزرتے ان کا نعروں سے استقبال کیا جاتا، ہاروں اور پھولوں سے لاد دیاجاتا سیز فائر کے بعد مجھے سرحدی علاقے میں جانے کی بھی اجازت مل گئی اور باٹا پور معرکہ کے ہیروز کی بٹالین 3بلوچ سے دوستی ہو گئی، آج بھی جب آنکھ بند کرتا ہوں تو جنرل تجمل حسین ملک (تب بٹالین کمانڈر تھے) کرنل نفیس انصاری (سیکنڈ ان کمانڈ تھے) میجر انور شاہ اور میجر نواز کے علاوہ سٹاف افسر خالد نواز اور ایڈجوٹنٹ اقبال چیمہ یاد آئے اور ان کے ساتھ گزرا وقت بھی نہیں بھولتا، آج جنرل تجمل ملک، کرنل نفیس انصاری اور کیپٹن اقبال چیمہ اس خاکی دنیا میں نہیں، اپنے اپنے وقت پر اللہ کو پیارے ہو چکے، میجر انور شاہ اور میجر نواز کے بارے میں علم نہیں تاہم سٹاف آفیسر خالد نواز سے 1971ء میں بھی برکی سیکٹر پر ملاقات ہوئی، وہ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدہ سے اس وقت ریٹائر ہوئے جب جنرل پرویز مشرف کو چیف آف آرمی سٹاف بنایا گیا، ان سے سینئر علی قلی اور اس کے بعد خالد نواز تھے۔ اپنے گزرے وقت کے حوالے سے سوچتا اور اسے تقدیر کا کھیل جانتا ہوں کہ دونوں حضرات کو سپرسیڈ کیا گیا ورنہ اگر علی قلی سے کوئی تحفظ تھا تو خالد نواز بہترین چوائس تھے، اس کا اندازہ مجھے ستمبر 65 اور 1971ء کی دونوں جنگوں کے دوران ان سے ہونے والی ملاقاتوں اور احوال سے ہے۔ بہرحال وہ گزرا وقت ہے، اب تو بات ہی کی جا سکتی ہے، آج جو حالات ہیں، ان کے مطابق تو ستمبر 65ء ایک تاریخ ہی نظر آتا ہے۔
قارئین! یاد رہے کہ ستمبر 65ء کی 17روزہ جنگ اور اس کے اختتام سے اب تک 6ستمبرکو یوم دفاع کے طور پر ہی منایا جاتا ہے اور اس کی بہت ہی معقول وجہ ہے کہ دشمن نے چھمب، جوڑیاں ہاتھ سے جاتے دیکھ کر اچانک بین الاقوامی سرحد پرحملہ کیا اور یہ حملہ اتنی بھرپور تیاری کے ساتھ تھا کہ ان کے کمانڈر انچیف کی یہ بڑھک کہ جمخانہ لاہور میں جام پئیں گے بعید از قیاس نہیں تھی لیکن ہماری مسلح افواج کے جذبہ جہاد نے اسے ناکام بنا دیا اور دشمن لاہور تو کیا آتا وہ جلو موڑ پر بی آر بی نہر کا پل بھی پار نہ کر سکا، مجھے 3بلوچ کی جنگی تاریخ زبانی یاد ہے اور جنرل تجمل حسین ملک نے خود بھی بتایا تھا کہ باٹا پور معرکہ کے دو اہم موڑ تھے، مرحوم جنرل تجمل کے مطابق ریلوے لائن سے باٹا پور نہر کے پل تک کا درمیانی علاقہ ان کی بٹالین کی ذمہ داری تھی، حملہ اچانک تھا اور صبح کے وقت نہر پار سے لوگ بھی چلے آ رہے تھے، ایسے میں بھارتی ٹینکوں کی بڑھتی ہوئی یلغار کو روکنا لازم تھا اور اینٹی ٹینک گن کے لئے آڑ کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو سڑک کی سیدھ کی وجہ سے موجود نہیں تھی، تجمل ملک صاحب کو بھوسے سے لدھی ایک بیل گاڑی ملی تو انہوں نے اس کی آڑ میں اینٹی ٹینک گن لگا کر اس کا وار کیا، قدرت نے مدد کی اور پہلے والا ٹینک ہٹ ہو گیا اور بھارتی فوج ٹھٹھک گئی کہ آگے راستہ صاف نہیں ہے۔ جنرل تجمل کے مطابق اس کے بعد آمنے سامنے گولہ باری اور فائرنگ ہوتی رہی پھر پاکستان ایئر فورس کے شاہینوں کی مدد آ گئی جنہوں نے نیچی پروازیں کرکے بھارتی ٹینکوں کی نہ صرف پیش قدمی کو مستقل روک دیا بلکہ ان کے پڑخچے بھی اڑا دیئے۔ پھر 6-7 ستمبر کی شب سڑک والی نہر کا پل اڑا دیا گیا یہ کارنامہ کرنل نفیس انصاری (مرحوم) کی قیادت میں انجینئرز نے انجام دیا، اس کے بعد بھارتی افواج کی پیش قدمی مکمل طور پر رک گئی۔ سائیفن کی طرف سے فرنٹیئر فورس اور برکی کی طرف سے پنجاب رجمنٹ کے جوانوں نے پیش نہ چلنے دی یوں یہ دفاع مکمل ہوا، سیز فائر ہی کے دنوں میں، میں نے ملک غلام مصطفےٰ کھر کے ساتھ چونڈہ کا دورہ بھی کیا اور وہاں ہونے والی ٹینکوں کی خوفناک لڑائی کے حوالے سے عینی شاہدوں سے بھی ملاقات کی اور اپنے فوجی جوانوں کی دلیری، بہادری اور عقل مندی کی داد دی۔
جنگ ستمبر کے حوالے سے پہلے بھی بہت کچھ لکھ چکا ہوں، اور یہ بھی بتا چکا ہوں کہ بھارتی فوج واہگہ سرحد پار کرکے آتو گئی تھی لیکن اسے جلوموڑ پر رکنا پڑا تھا، اگرچہ سڑک کے دونوں اطراف گاؤں پر اس کا قبضہ تھا لیکن اس سے پرے علاقے میں وہ فوج نہیں تھی، میں آج بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ دشمن سے نبردآزما ہونے والا وہ جذبہ لوٹا دے اور آج کے مشکل مقامی اور بین الاقوامی حالات میں ہمیں اتحاد اور ایثار کی دولت عطا فرمائے۔