وزیر اعلیٰ بلوچستان سے ملاقات

    وزیر اعلیٰ بلوچستان سے ملاقات
    وزیر اعلیٰ بلوچستان سے ملاقات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 گزشتہ اتوار وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی لاہور میں کپٹن محمد علی قریشی شہیدکے خاندان سے اظہار تعزیت کے لئے تشریف لائے تو ایک مقامی ہوٹل میں اینکر پرسنز، تجزیہ کاروں اور کالم نگاروں سے ملاقات کی اور بلوچستان کے زخموں کو کھول کھول کر دکھایا۔ ان کے ہمراہ چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان اور بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند بھی موجود تھے۔ 

گفتگو کے آغاز میں ہی وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ آیا بلوچستان کی پاکستان کے ساتھ شمولیت زبردستی کا سودا تھا؟ اس کے بعد انہوں نے تاریخ کے اوراق پلٹنا شروع کئے تو خیال حسن میں حسن عمل کا سا خیال ایسی صورت حال پیدا ہو گئی۔ کہنے لگے کہ پاکستان 1935کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت بنا تھا جس میں پرنسلی سٹیٹس یعنی نوابی ریاستوں کو پاکستان اور انڈیا میں سے کسی ایک ملک کا انتخاب کرنے کا آپشن دیا گیا تھا۔ اس زمانے میں بلوچستان برٹش بلوچستان کے نام سے جانا جاتا تھا جہاں جام آف لسبیلہ غلام قادر، جو کہ سابق وزیر اعلیٰ جام کمال کے دادا تھے، سمیت مکران، آواران اور کئی ایک نوابوں نے پاکستان کے ساتھ جانے کا اعلان کیا تھا۔ البتہ ریاست قلات کے والی خان احمد یار خان نے جمہوری انداز میں فیصلے کی ٹھانی اور اپنی کتاب Inside Pakistanمیں لکھا کہ بالآخر ریاست قلات نے پاکستان میں شمولیت کو ترجیح دی تھی۔ البتہ ان کے بھائی آغا عبدالکریم نے ماننے سے انکار کردیا کیونکہ جب خان احمد یار خان قائر اعظم سے ملاقات کے لئے گئے تو وہ انہیں اپنے ساتھ نہیں لے کر گئے تھے اور افغانستان جانے کو ترجیح دی۔ وہ افغانستان جس نے 1980سے پہلے تک پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی۔ تب قائد اعظم کے حکم پر خان احمد یار خان نے باغیوں کے خلاف ایک معمولی سا آپریشن کیاجس کو بعض حلقے بنیاد بنا کر کہتے پائے جاتے ہیں کہ بلوچستان میں پہلا آپریشن 1948میں ہوا تھا اور اس سے یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پورا بلوچستان شروع دن سے پاکستان سے علیحدگی کی تحریک چلائے ہوئے ہے، جو سراسر جھوٹ اور پراپیگنڈہ ہے۔ 

وزیر اعلیٰ بلوچستان نے یہ دلچسپ نقطہ بھی بیان کیا کہ رحیم یار خان میں شرپسند کوئی کاروائی کرتے ہیں تو انہیں کچے کے ڈاکو کہا جاتا ہے اور اس علاقے کو کچے کا علاقہ کہاجاتا ہے لیکن قلات جو کہ بلوچستان کا حصہ ہے وہاں پر علیحدگی پسندی کی تحریک کا پراپیگنڈہ کرکے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے پورابلوچستان ہی اس تحریک کا حصہ ہے جو بالکل غلط تاثر ہے۔ اسی طرح ان کا یہ بھی اصرار تھا کہ علیحدگی پسندوں کی تحریک کو نسلی تحریک بھی قرار دیا گیا اور یہیں سے انہوں نے حیدرآباد سازش کیس کا تذکرہ شروع کردیا جب پوری نیب قیادت جیل میں قید کردی گئی تھی۔

انہوں نے کاہان کے علاقے میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کی کاروائیوں کے حوالے سے ویڈیو فوٹیج کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ جب بھی شرپسندوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں لڑائی ہوتی ہے تو وہ کولہو کے علاقے میں ہوتی ہے اور باقی کے بلوچستان میں کہیں بھی نہیں ہوتی، اس کے بعد انہوں نے پاک فوج کی جانب سے ناراض بلوچ سرداروں کو منانے کے لئے کی جانے والی فیاضیوں کا تذکرہ کیا جس کا بلوچ سرداروں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اس دوران نواب نوریز خان اور نواب اکبر بگٹی کے مارے جانے کے واقعات رونما ہوئے جو پہاڑوں میں جا چھپے تھے اور اپنے اپنے فراری کیمپ چلا رہے تھے۔ 2000میں نواب نوریز اور 2006میں نواب اکبر بگٹی کے قتل سے بلوچ لوگ ناراض ہوگئے۔ تاہم وزیر اعلیٰ بلوچستان نے لاہور کے باسیوں سے گلہ کیا کہ چونکہ وہ اپنے آپ کو بنگلہ دیش کے قیام کا ذمہ دار سمجھتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ریاست کو توڑنے کا الزام ان پر ہے تو وہ اب بلوچستان کے معاملے میں چپ سادھے رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ 

ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ ترقیاتی کاموں کا نہ ہونا بلوچستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ بات زور دے کر کہتے ہیں کہ چند بلوچ سردار ایک سازش کے تحت ایسی باتیں پھیلاتے ہیں جسے پنجاب کا میڈیا بغیر تحقیق کئے اپنالیتا ہے۔ انہوں نے پاک فوج کی جانب سے بلوچوں کو خوش کرنے کی پالیسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایاجس کے تحت کبھی آغازحقوق بلوچستان پیکج کا اعلان کیا گیا تو کبھی کچھ اور کیا گیا۔ اسی پالیسی کے تحت بلوچ دہشت گردوں کو بھی چھوڑدیا گیا۔ اس دوران بلوچستان کی یونیورسٹیاں بلوچ لبریشن آرمی کی نرسریاں بن گئیں اور جنگ کے مخالف بلوچوں کو جان کے لالے پڑگئے کیونکہ ان کے تحفظ کا اہتمام نہ کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ مسنگ پرسن کے نام پر پنجاب میں جس میڈیا کمپین کا آغاز ہوا اس کے بعد اب علیحدگی پسند پاک فوج پر بھی حملے کر رہے ہیں۔ ان عناصر کا مقصد پاکستان کو توڑنا ہے جس کے لئے تین طرح کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے۔ اس میں پہلے نمبر پر دہشت گردی، دوسرے نمبر پر بلوچ نوجوانوں کو گمراہ کرنا اور تیسرے نمبر پر سوشل میڈیا کا استعمال  ہے۔ 

وزیر اعلیٰ بلوچستان نے مسنگ پرسنز کے نام پر میڈیا کے دباؤ کا بھی گلہ کیا ور کہا کہ اس سے قبل فوجی کرنل علیحدگی پسندوں کو بسوں سے اتار کر کاروائی کیا کرتے تھے اور آج علیحدگی پسند دہشت گرد فوجی کرنیلوں کو بسوں سے اتار اتار کر مار رہے ہیں۔ اس دباؤ کی وجہ سے ہیومن انٹیلی جنس کا نیٹ ورک بھی بگاڑ کا شکار ہو گیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ علیحدگی پسند دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے وہی پالیسی اپنانی پڑے گی جو پنجاب میں کرائم کو کنٹرول کرنے کے لئے ماضی میں شہبا ز شریف نے اختیار کی تھی۔

مزید :

رائے -کالم -