تابوت میں آخری کیل۔۔۔
کیا یہ آپ کا آخری فیصلہ ہے ؟؟؟؟ اگر ہاں۔۔۔۔ تو یقین جانئے اب آپ کو بربای سے کوئی نہیں بچا سکتا۔۔۔
چندروزقبل دوستی کےعالمی دن کےموقع پر جب دہلی میں اسرائیلی سفارتخانے نے مودی اور نتن یاہو ملاقات کی تصویر شیئر کی اوربیک گراؤنڈمیں بھارتی فلم شعلےکےگانے’ دوستی اک ایسا ناطہ جوسونے سےبھی مہنگا‘کی دھن سنائی توبہت سے سمجھنے والوں نے تار و پودکے اس سارے کھیل کا چکر سمجھ لیا۔اگلے ہی دن دنیا کی سب سے بڑی جیل فلسطین کے بعد جنت نظیر کشمیر میں بھی آبادی کی مساوات کو بدلنے کی سازش سامنے آگئی۔درحقیقت بھارتی صدر نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے فرمان پر نہیں بلکہ بھارت کے بھیانک انجام کے پروانے پر دستخط کئے ہیں۔ماضی کے اوراق پلٹے بغیر دور جدید کی بات کریں تو بھی ایسا پہلی بار نہیں ہواجب درجنوں اعلیٰ دماغوں ، سیکڑوں پر مشتمل تھنک ٹینکوں ،جدید سائنسی بنیادوں پر تجزیوں اور ماضی کی کھلی کتاب،حال کے احوال اور مستقبل کا تدراک ہونے کے باوجود کسی ملک نے انتہائی بھیانک فیصلے سے اپنے تابوت میں آخری کیل خود ٹھونکی ہو۔ آنجہانی سپر پاور سوویت یونین اس کی سب سے بڑی او عبرتناک مثال ہے۔19دسمبر 1979کو افغانستان پر چڑھائی کے فیصلے نے دنیا کا نقشہ ہی نہیں طاقت کا عالمی توازن بھی بدل دیا۔2002میں افغانستان پر امریکی حملوں کا آغازبھی کلسٹر بموں کی کارپٹنگ سے ہوا مگر کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود سپاہیوں کے ذہنی مریض بننے اور سوختہ لاشوں کے ہزاروں بند تابوتوں کے سوا کچھ حاصل نہ ہوسکا۔ آج دوحہ کے سٹیج پر واپسی کے محفوظ راستے کیلئے امریکی کس طرح طالبان کی منت ترلے پر مجبور ہیں۔ یہی نہیں سوسال کے عرصے میں لڑی جانےوالی ویتنام جنگ میں اترنے کے فیصلے نے بھی امریکہ کیلئے اسی طرح ہزیمت کا سامان کیاجبکہ دوسری عالمی جنگ میں دونوں جانب کی ناعاقبت اندیش قیادت کےغلط اورنخوت زدہ فیصلوں نےجہاں ہمیں ایٹمی تباہ کاریوں سےبھارت میں پھیلنےوالی بے چینی سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔کسی حد تک واضح ہورہا ہے کہ انتہاپسندسیکولر بھارت کے کریا کرم کے بعد اب نام نہاد چمکتے دمکتے جمہوری بھارت کے جغرافیہ کے درپر ہیں۔ یہاں لازمی نتیجہ یقینی طور پر سب سے بڑی جمہوریت کی شکست و ریخت کی صورت نکلے گا۔
مودی سرکارکے ناعاقبت اندیش فیصلےسےبھارتی سیاست کےایوانو ں میں آنےوالے بھونچال نےمستقبل کی دھندلی سے تصویر کےکچھ نقوش توواضح کردیئے ہیں۔آرٹیکل 370 اور 35اے کے خاتمے کا فیصلہ چناروں کی وادی میں آگ بھڑکانے کے مترادف ہے جس نے پہلے سے بھپرے ہوئے کشمیریوں کو مزید سیخ پا کردیا ہے۔یہ سمجھنااب کچھ مشکل نہیں کہ بھارت فوجوں میں اضافہ کرکے بھی کشمیر کی تقدیر کو برپاہونے سے نہیں رو ک سکتا۔ وادی کو پہلی بار فوجی چھاؤنی میں تبدیل نہیں کیا جارہا۔ اس لئے ہر بار کی طرح کشمیری اس بار بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کو تیار بیٹھے ہیں۔ یہ کسی کی بھول ضرور ہوسکتی ہے مگر حقیقت نہیں کہ رابطوں کی بندش ، کاروبار زندگی کے تعطل،کرفیو ، نظر بندیوں، جیلوں ، تشدد اور شہادتوں سے بھارت کشمیر پرتسلط مزید قائم رکھ سکتا ہے ۔
بھارتی صدارتی حکم نامے کے ذریعہ کشمیر کو شاہراہ عام بنانے کا اعلان کشمیریوں کیلئے کسی قیامت سے کم نہیں ،آرٹیکل 370کے تحت کشمیریوں کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کرکے ریاست جموں و کشمیر کا خاتمہ اور حصے بخرے کا اہتمام کردیا گیا۔آرٹیکل کے تحت عائد کشمیر میں غیر ریاستی شخص کے وادی میں جائیداد خریدنے اور مستقل قیام پر عائد پابندی ختم ہوگئی ہے۔واضح رہے کہ وادی کی متنازع حیثیت کے سبب ایسی ہی پابندیاں پاکستان کے زیر کنٹرول کشمیر میں بھی عائد ہیں جو خطے کی بین الاقوامی متنازع حیثیت کو مسلم کرتی ہیں۔اپنی دانست میں کشمیر کی متنازع حیثیت کے خاتمے کیلئے بڑی چال چلی گئی ہے، مگر تاریخی طور پر یہ ایک فاش غلطی ہے،جس کے خطرناک نتائج کا غمیازہ کشمیریوں کے ساتھ ساتھ پورے بھارت کو بھگتنا پڑے گا۔آبادی کی مساوات تبدیل کرنے کا پینتراایسی صورت میں کیسے کامیاب ہوسکے گا جب برہم کشمیری ایک تحریک کی صورت سیل رواں بن کر مودی سرکار کو بھرپور جواب دینگے؟؟ جب اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائیگاتو انارکی ، بے امنی اور ہنگاموں میں کشمیر میں آبسنے کے خواب دیکھنے والے خوف کی لہر کا مقابلہ کیسے کرسکیں گے؟
نظر کچھ یوں آتا ہے کہ حالیہ فیصلہ دوستی کے عالمی دن پر اتل ابیب سے موصول ہوا ہے ۔ جہاں 70 سالوں سے مودی کے صیہونی دوستوں نے فلسطینیوں کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ ناجائز یہودی بستیاں بسانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل بے در بے گھر لاچار اور دنیا کی سب سے مظلوم اکثریت کو آگے بڑھنے سے روک سکا ہے، ارض مقدس میں جاری آزادی کی اس لڑائی میں پتھروں اور پٹرول بموں سے مسلح فلسطینی نوجوانوں نے غاصب اسرائیل کے گرد خوف کا ہالہ قائم کردیا ہے ۔ کشمیر میں بھی ایسا ہی منظر نامہ ترتیب پارہا ہے ، اصولی موقف اور ازلی حق کو کوئی بھی غاصب کتنے دن تک دبا کررکھ سکتا ہے ؟؟؟ کم سے کم چند سال یا زیادہ سے زیادہ ایک صدی !!! کشمیری اور فلسطینیوں کا اس پل پر کافی سے زیادہ سفر طے ہوچکا ہے اور تھوڑا سا باقی ہے ۔ وقت بہر حال گزر ہی جاتا ہے ۔۔۔۔۔
(لکھاری محمد سعید رفیق معروف صحافی اور نجی ٹی وی چینل اور معروف قومی اخبار کے نیوز روم میں ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں ،اہم قومی ایشوز پر’’ڈیلی پاکستان آن لائن‘‘ کے قارئین اُن کی تحریریں یہاں پڑھ سکیں گے ۔)
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔