مجاہد ختم نبوت مولانا اللہ وسایا (2)

مجاہد ختم نبوت مولانا اللہ وسایا (2)
 مجاہد ختم نبوت مولانا اللہ وسایا (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سوال:آپ کے استاد کون تھے؟
جواب:میرے استاد کا نام مولانا حافظ اللہ بخش تھا جو جامعہ عباسیہ بہاولپور سے فارغ تھے۔


سوال:کیا اس مدرسہ میں صرف دینی تعلیم دی جاتی تھی؟
جواب:مدرسہ رفیق العلماء بستی ڈتہ بلوچ میں دینی تعلیم کے علاوہ عصری تعلیم کا بندوبست بھی تھا۔ مولانا حافظ اللہ بخش فارغ وقت میں درس نظامی پڑھاتے تھے۔


سوال:کیا آپ نے جامعہ عباسیہ کے ان مدارس کے علاوہ کسی اور درس گاہ سے بھی استفادہ کیا؟
جواب:جامعہ عباسیہ کے علاوہ میں نے قاسم العلوم ملتان میں داخلہ لیا اور وہاں سے دوبارہ مشکوٰۃ المصابیح پڑھی۔


سوال:آپ نے موقوف علیہ تک پڑھنے کے بعد دورہ حدیث کہاں سے کیا؟
جواب:دورہ حدیث کے لیے میں نے مخزن العلوم خان پور میں داخلہ لیا۔ یہاں پر مجھے مولانا عبداللہ درخواستی کی صحبت ملی جو بہت بڑے محدث تھے، مجھے ان کی خدمت میں رہ کر دورہ حدیث کی تکمیل کی سعادت حاصل ہوئی۔


سوال:مولانا محمد عبداللہ کے ساتھ درخواستی کا لاحقہ کس وجہ سے ہے؟
جواب:درخواست، خان پور کے قریب ایک بستی کا نام ہے۔ مولانا عبداللہ اسی موضع کے رہنے والے تھے۔ اسی نسبت سے ان کو درخواستی کہا جاتا ہے۔ جیسے مجید لاہوری، گاماں پہلوان امرتسری وغیرہ کہا جاتا ہے۔


سوال:آپ نے مولانا عبداللہ درخواستیؒ سے دورہ حدیث مکمل کیا، یہ فرمائیے کہ آپ نے سلوک کی منازل طے کر نے کے لیے کس بزرگ سے رجوع کیا؟
جواب:اس حوالے سے میں نے پہلی بیعت مولانا عبدالعزیز چک گیارہ چیچہ وطنی والوں سے کی۔

جو حضرت حافظ صالح محمد کے صاحبزادے تھے اور حافظ صالح محمد صاحب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے خلیفہ مجاز تھے۔ ان کے بعد میرا تعلق حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحب سے ہوا۔ جو میرے شیخ ثانی تھے۔


سوال:آپ کا تعلق مجلس تحفظ ختم نبوت کے ساتھ کب ہوا؟
جواب:میں پچھلے پچاس برس سے مجلس تحفظ ختم نبوت کے ساتھ متعلق ہوں۔ یہ تعلق 1968ء میں قائم ہوا۔ یہ تعلق مولانا سید محمد علی شاہ صاحب کے توسط سے قائم ہوا۔

آپ مولانا غلام محمد گھوٹوی کے شاگرد تھے۔ جماعت کے ساتھ تعلق قائم ہونے کے بعد فاتح قادیان مولانا محمد حیات سے فن مناظرہ کی تعلیم حاصل کی۔ مولانا محمد علی جالندھری کی صحبت میں رہنے کا موقعہ ملا۔

انہی کے حکم پر جماعت کی طرف سے میرا تقرر فیصل آباد ہوا۔ وہاں مجھے مجاہد ختم نبوت حضرت مولانا تاج محمودؒ کی صحبت حاصل ہوئی۔ ان کے انتقال کے بعد مجھے حکم ملا کہ میں مولانا تاج محمودؒ کی جگہ اسٹیشن والی مسجد میں خطبہ جمعہ بھی دیا کروں۔

کچھ عرصہ میں نے یہ فریضہ بھی سرانجام دیا۔ اسی دوران مولانا محمد شریف صاحب جالندھری مرکزی ناظم اعلیٰ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا انتقال ہو گیا اور میرا تقرر جماعت کی طرف سے مرکزی دفتر ملتان کر دیا گیا، اس وقت سے ملتان ہی میں ذمہ داری نبھا رہا ہوں۔ عقیدہ ختم نبوت کا خادم ہوں۔ شب و روز اسی خدمت میں گزرتے ہیں۔

سوال:اس بارے میں اپنی شنید یا دید کے حوالے سے کوئی اہم واقعہ بتلائیے؟
جواب:ایسے واقعات تو بے شمار ہیں جن پر کتاب لکھی جا سکتی ہے تاہم اپنی شنید کا ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔ حضرت امیر شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی زندگی کا مشن ردقادیانیت تھا۔

آپ نے 1934ء میں قادیان میں سہ روزہ ختم نبوت کانفرنس بلائی۔ اس سلسلے میں آپ دین پور تشریف لائے اور مولانا غلام محمد صاحب سے عرض کی کہ آپ قادیان کانفرنس میں تشریف لائیں۔

آپ نے ضعف کی وجہ سے معذرت کی لیکن شاہ صاحب نے بہت اصرار کے ساتھ دعوت دی۔ مولانا غلام محمد نے فرمایا کہ میں معذور ہوں سفر کے قابل نہیں۔ میرے ایسے معذور آدمی کو آپ وہاں لے جاکر کریں گے کیا؟۔ حضرت امیر شریعتؒ نے فی البدیہہ فرمایا کہ آپ کو اونٹ پر بیٹھا کر لے جاؤں گا۔

مہار خود پکڑوں گا اور قادیان جلسہ گاہ کی سٹیج پر بیٹھا کر قادیان والوں سے کہوں گا کہ تم نے جھوٹا غلام احمد قادیانی دیکھا ہے سچا غلام محمد دین پوری بھی دیکھو۔ ان حضرات کا یہ جذبہ آج ہمارے لئے سرمایہ حیات ہے۔ یہ دور مرزا غلام احمد کے بعد مرزا محمود کا تھا، اس کانفرنس میں دار العلوم دیوبند کے مہتمم حضرت قاری محمد طیب مرحوم بھی تشریف لائے تھے۔


سوال:یہ مولانا غلام محمد صاحب کون تھے، ذرا تفصیلی تعارف کرائیے؟
جواب:مولانا غلام محمد جھنگ کے رہنے والے تھے۔ ہجرت مدینہ کی غرض سے جھنگ سے چلے، مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے مدینہ تو نہ پہنچ سکے البتہ ضلع خان پور میں آ کر آباد ہو گئے جہاں بہت بڑی اصلاحی خانقاہ کی بنیاد رکھی جو آج کل موضع دین پور کہلاتا ہے۔

مولانا غلام محمد کا مدفن اسی جگہ ہے، ان کے علاوہ مولانا عبیداللہ سندھی اور دیگر اکابر بھی اسی جگہ مدفون ہیں۔

سوال:والد محترم کیاکرتے تھے؟
جواب:میرے والد ملک محمد رمضان زمیندارہ کرتے تھے چند ایکٹر ذاتی زمین تھی جس پر کاشت کاری کرتے تھے
سوال:جامعہ عباسیہ کے بعض مشاہیر کا تعارف کرائیں گے؟


جواب: جامعہ عباسیہ میں مولانا محمد ناظم ندوی، مولانا محمد صادق بہاول پور، مولانا شمس الحق افغانی، مولانا سید احمد سعید کاظمی، مولانا عبدالرشید نعمانی ایسے نابغہ روزگار حضرات مسند تدریس پر فائز رہے۔


سوال:بستی فقیراں نزد مبارک پور مدرسہ کانام کیا تھا؟وہاں اساتذہ کون کون تھے؟
جواب:رفیق العلماء سکول کا نام تھا۔ اس میں ماسٹر محمد شریف، مولانا منظور احمد، مولانا عاشق حسین، مولانا نور محمد اور دیگر اساتذہ پڑھاتے تھے۔


سوال:مولانا آپ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ رد قادیانیت کے جہاد میں صرف کیا، اس دوران پیش آنے والے کسی اہم واقعے کا حال بتلائیے؟
جواب:عقیدہ ختم نبوت کی جدوجہد میں وہ قلبی سرور اور ذہنی انبساط ملتا ہے کہ دوسرا اس کا تصور نہیں کرسکتا۔ مناظرہ میں بسا اوقات نیا سوال سامنے آنے پر من جانب اللہ جواب فوری ذہن میں اتر آتا ہے ۔ یہ کہ مجھے کسی میدان میں شکست نہیں ہوئی، یہ اللہ کی مہربانی اور کرم ہے۔


سوال:آپ مولانا درخواستی کی کس عادت سے بہت زیادہ متاثر ہوئے؟
جواب:حضرت درخواستی، حافظ الحدیث تھے۔ دینی مدارس قائم کرنے میں بہت زیادہ کردار ادا کیا۔ نصف صدی تک پاکستان کے علماء کرام کی جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے قیادت کی۔ وہ انتھک انسان تھے۔ اور جراء ت کا نشان تھے۔


سوال:رد قادیانیت کے حوالے سے سرکاری سطح پر کس سربراہ نے زیادہ کام کیا، کچھ تفصیل بتلائیے؟
جواب:1974ء میں جناب ذوالفقار علی بھٹو نے قادیانیوں کے آئینی احتساب کی بنیاد رکھی۔1984ء میں جنرل ضیاء الحق صاحب نے اس کام کو آگے بڑھایا اور قادیانیت، ایسے باطل عقیدے کا پوری قوت سے ابطال کیا، میرے نزدیک یہ عمل ان کے لیے عظیم سرمایہ آخرت ہے۔ (جاری ہے)

مزید :

کالم -