بدنام زمانہ جیل ’گوانتاناموبے‘سے سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف پر امریکی کی کہانی۔۔۔انیسویں قسط
سعودی باشندے پر بہیمانہ تشدد:
اس دوران افواہ آئی کہ امریکی فوجیوں نے سعودی عرب کے مشعل نامی قیدی کو اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے جام شہادت نوش کر لیا یہ۔ اس افواہ سے حالات مزید سنگین ہوگئے۔ اب فوجی بڑے بڑے مضبوط ڈنڈے اٹھائے پھرتے تھے۔ ایسی گاڑیوں کا گشت مختلف کیمپوں میں شروع ہوا جن پر توپیں اور مشین گنیں نصب تھیں۔ عصر کا وقت تھا جب عربی، انگریزی اور اردو میں اعلان ہوا کہ مشعل کی حالت نازک ہے۔ ان کی صحت یابی کے لیے دعا کریں۔ اس اعلان سے قیدی بھی خاموش ہوگئے اور اس تجسس میں مبتلا ہوگئے کہ اصل حقیقت کیا ہے؟ اور پھر ہمارا ہم خیال ایک قیدی جو اسپتال سے آیا تھا نے بتایا کہ میں نے مشعل کو دیکھا ہے اس کی حالت واقعی خراب ہے اور پھر دو تین مہینے بعد پتہ چلا کہ مشعل پر فالج کا حملہ ہوگیا ہے اور اس کے تمام اعضاء شل ہوگئے ہیں۔
امریکی فوجیوں نے مشعل کو تشدد کا نشانہ کیوں بنایا تھا اس کا ہمیں آخر تک پتہ نہ چل سکا۔ مشعل نے دو سال چھ مہینے اسپتال میں گزارے ، اس کو وہیل چیئر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا تھا۔ اتنا معذور تھا کہ بغیر کسی سہارے کے نہ کھڑا ہو سکتا تھا اور نہ بیٹھ سکتا تھا۔ آخر میں اسے سعودی حکومت کے حوالے کر دیا گیا۔
بدنام زمانہ جیل ’گوانتاناموبے‘سے سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف پر امریکی کی کہانی۔۔۔اٹھارہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
چالیس دن تک سونے نہ دیا:
پہلے پہل ہر کیمپ میں کھانے اور پھل وغیرہ کی اچھی خاصی مقدار ملتی تھی۔ پھر ہر کیمپ کے انچارج نے عجیب رویہ اختیار کرنا شروع کر دیا۔ ہوا یوں کہ ایک فوجی بار بار ہر قیدی کے پاس جاتا اور کھانے کا مینو ، پسند نا پسند اور کمی بیشی کے بارے میں پوچھتا اور ایک نوٹ بک میں تحریر کرتا جاتا۔ نتیجہ اس عجیب کا یہ نکلا کہ کھانے پینے کی جو چیزیں قیدیوں کو پسند نہیں تھیں اس کی مقدار بڑھا دی گئی اور جس چیز کے بارے میں پسندیدگی کا اظہار کیا گیا اس کی مقدار کم کر دی گئی۔ خوراک کی اچھی چیزیں غائب ہوگئیں جبکہ ناکارہ اشیائے خوردنوش میں اضافہ کر دیا گیا۔ وقت کے ساتھ مشکلات بڑھتی گئیں۔ آغاز میں تفتیش یا ریڈ کراس والوں سے ملنے یا ڈاکٹر کے پاس لے جاتے وقت ایک پٹے سے باندھا جاتا جو بعد میں زنجیر میں تبدیل ہوگیا اور پھر زنجیر سے پاؤں اور ہاتھوں کو بھی باندھا جانے لگا۔ ہتھکڑی ایک کی بجائے تین تین پہنائی جانے لگیں۔ پہلے آنکھیں بند نہ کی جاتی تھیں۔ پانچویں کیمپ میں آنکھوں پر پٹی باندھنا اور کانوں میں روئی ٹھونسنا عام سی بات بن گئی تھی۔ پہلے مذہبی کتابوں پر کوئی پابندی نہیں تھی جو بعد میں عائد کر دی گئی۔ اقتصادیات، ریاضی، بیالوجی، سیاست، تاریخ اور جغرافیہ کے موضوع پر مبنی کتابیں بھی بند کر دی گئیں۔ نیند پوری نہ لینے دی جاتی۔ ملا اخوند کو40دن اور40رات تک نیند نہ کرنے دی گئی۔ ان کو سخت سردی میں بھی ائیرکنڈیشنڈ کمرے میں رکھا گیا۔
جنیوا جا کر اپنے حقوق حاصل کرو:
فوجی گھی کے خالی کنستر بجاتے تاکہ قیدی سو نہ سکیں۔ قیدیوں کو خصوصاً عرب قیدیوں کو موٹر لانچ میں بٹھا کر فل اسپیڈ کے ساتھ چلائی جاتی۔ رفتہ رفتہ علاج کی سہولتیں کم ہوتی گئیں۔ ڈاکٹر ابتدائی مراحل میں آزاد تھے اور مریض قیدیوں کو دوائیاں بھی دیتے تھے مگر رفتہ رفتہ ان پر بھی پابندیاں عائد ہوگئیں اور قیدیوں پر توجہ بالکل نہ دی جاتی۔ خون کے کینسر میں مبتلا قندھار کے ولی محمد نامی قیدی کی تکلیف سے چیخیں نکل جاتیں مگر اس کے پاس کسی معالج کو نہیں بھیجا گیا نتیجتاً اس کا سارا جسم سوج گیا۔ ہم مجبور ہوگئے کہ اس کے لیے احتجاج شروع کریں۔ ہم نے زور زور سے نعرہ تکبیر بلند کرنا شروع کر دیا اور قید خانے کی آہنی دیواروں کو مار مار کر شور مچانا شروع کر دیا جس سے فوجیوں کے اوسان خطا ہوگئے۔ فوجیوں نے اپنے افسروں کو بلایا۔ ترجمان کو لایا گیا پھر جا کر مریض کو کلینک لے جایا گیا جہاں اس کے مرض(بلڈ کینسر) کی تشخیص کی گئی۔ کینسر نے اس کے جگر کو بھی متاثر کیا تھا۔ اگر ولی محمد کا بروقت علاج ہوتا تو اس کا مرض اتنا نہ بڑھتا۔ ہم کبھی کبھار جنیوا کنونشن کے تحت اپنے حقوق یاد دلاتے تو امریکی فوجی کہتے کہ جنیوا جا کر اپنے حقوق حاصل کر لو، یہ امریکا ہے۔
مریکی فوجیوں کی صدر بش کو گالیاں:
ہم سے تفتیش کے دوران کوئی با مقصد جواب نہ پاتے اور تشدد کرکے تھک جاتے تو آخر میں خود اپنے صدر بش کو گالیاں دینا شروع کر دیتے۔ کبھی میڈیا کے لوگ یا حکومتی عہدیدار تماشا دیکھنے آتے تو سارے کیمپوں کا معائنہ کرانے کی بجائے ان کو صرف4th Campکا دورہ کرایا جاتا کیونکہ اس کیمپ کے حالات اچھے تھے۔ا یسے وفود کو دکھانے کے لیے نمائشی جگہیں بنائی گئی تھیں۔ اکثر مریضوں کو دورے کے اوقات میں نشہ دیا جاتا تھا تاکہ وہ سوئے رہیں اور امریکی وحشیانہ سلوک کا بھانڈا نہ پھوڑ سکیں۔ ایک مرتبہ چوتھے کیمپ کے دو قیدیوں نے ایک وفد کے ارکان کو بتایا کہ یہ نمائشی کیمپ ہے آپ اگر حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو پہلے دوسرے، تیسرے، پانچویں اور ایکو کیمپ کے قیدیوں اور مریضوں کا حال دیکھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم انصاف چاہتے ہیں ، ہم دہشت گرد نہیں ہیں۔ ہمیں عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ پتہ ل گے کہ کتنے بے گناہوں کو دہشت گردی کے کھاتے میں سخت ترین عذاب سے گزارا جا رہا ہے۔ امریکی فوج نے بعد میں شکایت کرنے والے بیس افراد کو سزا کا مستحق قرار دے کر ان کو چوتھے کیمپ سے باہر نکالا اور ساری مراعات اور سہولیات واپس لے لیں۔
(جاری ہے، بیسویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
نائن الیون کے بعد جب امریکی افواج نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کی امن پسندقیادت کوبھی چن چن کر تحقیقات کے نام پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں انہیں جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کیاگیا تاہم ان میں سے اکثر قیدی بے گناہ ثابت ہوئے ۔ملا عبدالسلام ضعیف افغان حکومت کے حاضر سفیر کے طور پر پاکستان میں تعینات تھے لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹراور سفارت کے تمام آداب و اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کو مجبور کرکیااور انکو گرفتارکرکے گوانتانہ موبے لے جاکر جس بیہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد کوروا رکھا اسکو ملاّ ضعیف نے اپنی آپ بیتی میں رقم کرکے مہذب ملکوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیاتھا ۔انکی یہ کہانی جہاں خونچکاں واقعات ، مشاہدات اور صبر آزما آزمائشوں پر مبنی ہے وہاں ملاّ صاحب کی یہ نوحہ کہانی انسانیت اورامریکہ کا دم بھرنے والے مفاد پرستوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔دورحاضر تاریخ میں کسی سفیر کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ حیوانی سلوک اقوام متحدہ کا شرمناک چہرہ بھی بے نقاب کرتا ہے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان مٰیں شائع ہونیوالی تحاریر سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔